حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلے 100دن میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ صوبہ تو قائم نہ ہوا البتہ کچھ عرصہ پہلے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنایا گیا اور 20کے قریب محکموں کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی اور دیگر افسران کی تقرریاں کی گئیں۔
تاہم رواں ہفتے اچانک ہی وہاں تعینات کیے گئے سات محکموں کے سیکرٹری لاہور واپس بلا لیے گئے، جس سے یہ محکمے فعال ہونے سے پہلے ہی بند ہوگئے۔
حکومت کے مطابق رولز آف پروسیجرز بنائے بغیر جنوبی پنجاب سیکرٹریوں کی تقرریاں ہونے سے وہ سرکاری امور قانونی طور پر انجام نہیں دے سکتے تھے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے قانون سازی کی جائے گی پھر دوبارہ تقرریاں کی جائیں گی، مگر جنوبی پنجاب کے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبہ بنانے کی بجائے اس خطے کی عوام کو سیکرٹریٹ کا ’لولی پاپ دیا گیا تھا‘ اور اب سیکرٹریوں کو واپس بلانے سے ثابت ہوگیا کہ وہ ’ایک مذاق تھا۔‘
سیکرٹریوں کو واپس کیوں بلانا پڑا؟
وزارت قانون کی ذیلی کمیٹی نے رواں ہفتے اجلاس میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث سات محکموں کے سیکرٹریوں واپس بلانےکی منظوری دے دی۔
پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کی چیئرپرسن زینب عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں 20محکمے قائم کر کے سیکرٹری تعینات کیے لیکن رولز آف پروسیجر نہ بننے کے باعث وہ سرکاری امور انجام دینے سے قاصر تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا تجربہ تھا اس لیے پوری طرح قانونی ڈھانچہ نہیں بنایا جاسکا۔ اور اب وزارت قانون نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک اس بارے میں قانون سازی مکمل نہیں ہوتی سات محکموں کے سیکرٹریوں کو واپس سول سیکرٹریٹ لاہور بلایا جائے۔ ’جب تک نئی قانون سازی نہیں ہوتی تب تک یہ افسران یہاں اپنے فرائض انجام دیں گے بعد میں وہاں تعیناتیاں کی جائیں گی۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق ترجمان پارلیمانی سیکرٹری ندیم قریشی نے کہا: ’ہماری حکومت جنوبی پنجاب صوبے کا قیام چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس نے علیحدہ صوبہ کا مطالبہ اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ لیکن اسمبلیوں میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث علیحدہ صوبہ تو نہ بن سکا اس لیے ہم نے پہلی بار جنوبی پنجاب کے لیے سیکرٹریٹ کا قیام کیا۔ یہ آسان کام نہیں کیونکہ محکموں کو 77 سالوں کا ریکارڈ لاہور سے اس خطہ کے ساڑھےچار کروڑ عوام کے لحاظ سے یہاں لانا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ محکموں کو یہاں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے لائحہ عمل بھی الگ سے بنانا تھا اور کچھ عرصہ پہلے ہی یہاں سیکرٹریٹ بنا تو اس کے مکمل فعال ہونے میں کچھ وقت تو درکار ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ قانونی پیچیدگیوں کے بعد دوبارہ یہاں تقرریاں کر کے عوامی مسائل حل ہوں گے۔ ’یہاں کا بجٹ بھی یہیں سے خرچ ہوگا، تقرریاں اور تبادلے اور محکمانہ مسائل بھی لاہور کی بجائے یہیں سے حل ہوں گے لیکن اس کے لیے مکمل ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔‘
خطے کے رہنماؤں کا ردعمل
جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کے مطالبے کے ساتھ بننے والی سرائیکی پارٹی کے رہنما ظہور دھریجہ نے اس بارے میں شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک کو پی ٹی آئی نے نقصان پہنچایا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’انہوں نے سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر پہلے علیحدہ صوبہ بنانے کا اعلان کردیا پھر بہاولپور اور ملتان کے لوگوں کو مرکز بنانے کی بنیاد پر تقسیم کردیا تاکہ یہ متحد نہ ہوسکیں۔‘
ظہور دھریجہ نے کہا کہ ’حکمران جماعت نے لوگوں کو لالی پاپ دینے کے لیے یہاں ایک غیر سنجیدہ اور بے اختیار سیکرٹریٹ بنایا۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، خزانہ، ثقافت اور اطلاعات جیسے اہم محکمے تو بنائے ہی نہیں گئے مگر جو 20 بنائے تھے ان محکموں میں سے بھی سات محکموں کے سیکرٹریوں کو واپس بلا لیا اور جواز دیاکہ قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے جسے سیکرٹریٹ بنانے کی جلدی تھی اور قانونی ڈھانچہ بنایا ہی نہیں گیا؟‘
ظہور دھریجہ کے مطابق اس ’سیکرٹریٹ کے فعال ہونے سے پہلے ہی اسے خود غیر فعال کیا جارہا ہے جو خطے کے لوگوں سے مذاق ہے۔‘ ان کے مطابق: ’حکومت نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی کوئی ایک بھی سنجیدہ کوشش کی ہے تو ثبوت پیش کرے کیونکہ عوام کے سامنے تو کچھ آیا نہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پہلے ہی اسمبلیوں میں قراردادیں پیش کر چکی ہیں حکومت کیسے دعویٰ کرتی ہے کہ اپوزیشن صوبے کے قیام پر ساتھ نہیں دیتی؟‘
انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کا مطالبہ جنوبی پنجاب کا علیحدہ اور بااختیار صوبہ بنانے کی ہے، اسے ایک بے اختیار صرف نام کی سیکرٹریٹ بنانے سے دبایا نہیں جاسکتا۔