غلام کٹھانہ کے خاندان نے اپنی زندگی کا نصف حصہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنگلات میں موجود اس جھونپڑے میں گزارا تھا لیکن ایک روز دو سو کے قریب اسلحے اور لاٹھیوں سے لیس افراد نے انہیں ان کے گھر سے باہر نکال کر سردی میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔
بھارت اس ہمالیائی خطے پر اپنا کنٹرول مزید بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور دور دراز کے جنگلات میں مقیم افراد کو اپنے آبائی گھروں سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔
جنگلات میں واقع ان دیہاتوں سے سیب کے ہزاروں درختوں کو کاٹا جا چکا ہے اور یہ کام پولیس، فاریسٹ گارڈز اور دوسرے حکام کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔
سیاحت کے لیے مشہور پہلگام کے علاقے میں رہنے والے 30 سالہ کٹھانہ نے بتایا: ’انہوں نے ہماری روایتی زندگی کو ختم کر دیا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے زندہ دفن کر دیا گیا ہو۔ یہ جنگلات ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں اور ہماری خوراک کا بندوبست کرتے ہیں لیکن انہوں نے ہمیں ان سے باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔‘
ان کے خاندان کے آٹھ افراد، جس میں ان کی 90 سالہ دادی جنت بیگم بھی شامل ہیں، کو اپنے گھر سے بے دخلی کے بعد اپنے رشتہ داروں کے گھر پناہ لینی پڑی ہے۔
بھارت بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد جنگلوں میں رہتے ہیں اور قوانین کے تحت اگر وہ تین نسلوں سے یہاں مقیم ہیں تو ان کی رہائش کی آزادی کا احترام کیا جانا لازم ہے۔
لیکن گذشتہ نومبر سے بھارتی حکام نے کشمیر کے جنگلات میں مقیم افراد کو بھیجے جانے والے بے دخلی کے نوٹسز میں یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ 60 ہزار سے زائد افراد یہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہے جبکہ دونوں ممالک اس کے مکمل رقبے پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دونوں جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان اس مسئلے پر کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
نئی دہلی نے کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور وہ یہاں کئی دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے خلاف مقابلہ کر رہے ہیں۔ عسکریت پسندی کی اس لہر میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے کشمیر پر بھارت کی گرفت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کشمیر کے عوام کی محدود خود مختاری کو بھی 2019 میں ایک قانون کے تحت ختم کر دیا ہے۔
اس فیصلے بعد ہزاروں افراد اور سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ مہینوں تک کشمیر میں فون اور انٹرنیٹ بند رہا تھا۔
نئے قانون کے تحت کشمیر میں باہر سے آنے والے افراد زمین خرید سکتے تھے جبکہ اس علاقے کی زمین پر بھی باقی بھارت کی طرح کے قوانین لاگو کر دیے گئے تھے، جن میں جنگلات میں رہنے کے حقوق بھی شامل تھے۔
حکام کے مطابق کشمیر کی ہزاروں ایکڑ زمین باہر سے آ کر یہاں کاروبار کرنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر میں شامل کی جا چکی ہے۔
ایک مقامی ایکٹویسٹ راجہ مظفر بھٹ کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو اپنے گھر سے نکالنا اور بے دخل کرنا ان سے سب کچھ چھیننے کے مترادف ہے۔‘
کئی افراد اس کا الزام وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست حکومت پر عائد کرتے ہیں جو کشمیر کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، جنہیں 2019 کے کریک ڈاؤن کے دوران ایک سال سے زائد عرصے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، نے الزام عائد کیا ہے کہ نئی دہلی حکومت ’نوآبادیاتی قوانین‘ کے تحت خطے کی آبادی کے تناسب کو بدلنا چاہتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئی دہلی حکومت نے کشمیر میں جھونپڑیاں گرانے اور درختوں کی کٹائی کے حوالے سے کوئی موقف نہیں دیا اور حکومت کے ترجمان سے اس بارے میں پوچھے جانے والے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
لیکن ایک سینئیر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اعلیٰ حکام کی جانب سے زمینوں کو خالی کرانے کے حوالے سے بہت دباؤ ہے۔‘
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ فاریسٹ گارڈز کو ٹمبر کی سمگلنگ کے خلاف اور اپنے علاقوں میں رہنے والے افراد کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے لیکن اس حوالے سے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ ایسا بے دخلی پر کیے جانے والے احتجاج کے بعد کہا جا رہا ہے۔
ان بے دخلیوں کی وجہ سے کشمیر جو پہلے ہی بھارتی حکومت کے خلاف غصے سے بھرا ہوا ہے، میں بے چینی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
وسطی کشمیر کے دور دراز علاقے کنیدجان کی بیا بانو کا کہنا ہے کہ فاریسٹ گارڈز نے ان کے آٹھ بچوں اور ان کے شوہر کو تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے اپنا گھر خالی نہیں کیا تو وہ انہیں زندہ جلا دیں گے۔
حکام نے اس علاقے میں 11 ہزار پھل دار درختوں کو بھی کاٹ ڈالا ہے، جو یہاں رہنے والے غریب خاندانوں نے کاشت کیے تھے۔
کنیدجان کے علاقے کے 70 سالہ رہائشی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ حکام نے بغیر کسی وارننگ کے ان کے باغ کے تین سو زائد سیب کے درخت کاٹ ڈالے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بغیر بتائے آ پہنچے، اس لیے ہم انہیں روک نہ سکے ورنہ ہم اپنے درختوں کو بچانے کے لیے اپنی جان بھی دے دیتے۔‘
عبدالغنی کے بیٹے شکیل احمد کا کہنا کا کہنا ہے کہ ’ہم یہاں بھارت کی آزادی سے بھی پہلے سے مقیم ہیں۔ یہاں ان کے علاوہ کوئی اور وسائل نہیں ہیں۔‘