سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی کا مقابلہ دراصل حکومت اور اسٹیبلیشمںٹ کا پی ڈی ایم کے ساتھ مقابلہ تھا۔ جیت جس کی بھی ہوتی اس کو ایک بڑے پیرائے میں دیکھا جانا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کی طرف سے دو مختلف آوازیں سامنے آ رہی تھیں۔ ایک طرف یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے اور مقابلہ صاف و شفاف ہو رہا ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن نے بہت سخت موقف اپنایا اور مریم نواز نے کہا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں، نامعلوم نمبروں سے فون کالز آ رہی ہیں، ان کے سینیٹرز کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔
ساتھ ساتھ نواز شریف نے کہا کہ ان کی بیٹی مریم نواز کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انہوں نے فوج کے اعلیٰ افسران کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی بیٹی کو کچھ ہوا تو یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے۔ بات یہاں جا کر نہیں رکی الیکشن کے دن بھی دو بڑے واقعات ہوئے۔ پولنگ بوتھ میں کیمرے نصب کیا جانا ان میں سے ایک تھا۔ پی پی پی اور نواز لیگ کی طرف سے بتایا گیا کہ چھ کیمرے نصب کیے گئے، سوشل میڈیا پر ان کیمروں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی گئیں۔
دوسری طرف ایک دو نہیں سات ووٹ مسترد کیے گئے۔ سیکریٹری سینیٹ نے کہا کہ یہ ووٹ جائز ہیں جب کہ بعد میں پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے جو جی ڈی اے کے سینیٹر ہیں کہا کہ ان ووٹوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔ بہر حال حکومت کی تو یہ جیت ہے، انہوں نے تو جیت کے شادیانے بجائے ہیں اور یہ کہا ہے کہ ضمیر اور حق کی جیت ہوئی ہے۔
اپوزیشن نے سینیٹ کے الیکشن کو فراڈ کہا ہے۔ اس کو اصول اور قانون سے ہٹ کر کہا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ جو ووٹ مسترد ہوئے وہ بھی غلط ہوئے ہیں۔ اپوزیشن کی حکمت عملی میں اب مسترد ہونے والے ووٹوں کو چیلنج کرنے اور ساتھ ساتھ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بھی بات ہوئی ہے۔ یہ لائحہ عمل بظاہر اب تک فائنل نہیں ہوا ہے لیکن بہرحال سنجرانی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
ایک دلچسپ بات پی ڈی ایم کی حکومت خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف دو قسم کی پالیسی سامنی آئی ہے۔ پی پی پی کی پالیسی یہ رہی ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کہا کہ وہ سینیٹ کے الیکشن میں غیرجانبدار رہی ہے۔ اس کے برعکس نواز شریف اور مریم نواز نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کافی سخت باتیں کی ہیں۔
دو جو مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو غور سے دیکھیں تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ ن بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی حکمت عملی اور اسٹیبلشمںٹ سے کے مبینہ رویئے کے خلاف نظر آتی ہے۔ آپسی اختلاف کی عکاسی مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کے ہارنے پر فوری طور پر ٹوئٹ سے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو صاحب آپ کو نیوٹرل کا مزہ آ گیا۔ انہوں نے طنز کیا اور کہا کہ آپ تو کہہ رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے۔ اب تو کیمرے بھی سامنے آگئے اور ووٹ بھی مسترد ہوگئے۔ لگتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی مختلف ہے۔
یہ حقیقیت ہے کہ بھلے سے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن شامل ہوں لیکن دونوں کے سیاسی اہداف مختلف ہیں۔ پیپلز پارٹی فوری الیکشن نہیں چاہتی، تھوڑی بہت جیت چاہتی ہے، تھوڑی سی جگہ چاہتی ہے، اپنے رہنماؤں کے لیے رعایت بھی چاہتی ہے اور ان کی اسٹیبلشمنٹ کےساتھ انگیجمنٹ بھی ہے۔
اس کے برعکس مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمںٹ کے ساتھ ایک جنگ کی سی صورت حال ہے۔ میاں نواز شریف کا ٹوئٹر پر آنےوالا بیان اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کا کوئی ورکنگ ارینجمنٹ بظاہر ممکن نہیں ہے۔ لیکن پھر دونوں پارٹیز چاہتی ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پریشر میں رہے۔ اس تناظر میں پی ڈی ایم کا سفر جاری رہے گا۔ آنے والے دنوں میں دیکھا جائے گا کہ کس حد تک یہ لانگ مارچ کیا جاتا ہے یا اس کی تاریخ تبدیل کی جاتی ہے یا نہیں۔
پاکستان میں جو پاور پلے کا مقابلہ ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کیا کردار ہے؟ صورت حال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پلیئر بھی ہے، مانیٹر بھی ہے، ریفری بھی ہے اور انٹرسٹڈ پارٹی بھی ہے۔ تو صادق سنجرانی کے الیکشن میں ہر صورت اسٹیلبشمنٹ چاہتی تھی کہ وہ جیتیں۔ شیخ رشید نے بھی کہا کہ یہ ریاست اور حکومت دونوں کے امیدوار ہیں۔ دیکھا جائے تو کیمرے لگانے کا عمل پی ٹی آئی نے نہیں کیا۔ یقینا سیاسی جماعتیں اس میں نہ مہارت رکھتی ہی ںا عموما دیکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس طرح کی جاسوسی کرتی ہیں۔
مطیع اللہ جان نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں جو دو ویڈیوز بنائی ہیں اس میں انہوں نے یہ بتایا کہ الیکشن سے دو روز پہلے چکوال کے ایک ریٹائرڈ میجر کو سینیٹ کا سکیورٹی چیف تعینات کیا گیا۔ اس کا نوٹیفکیشن موجود ہے۔ ریٹائرڈ میجر کو بغیر کسی اشتہار کے تعینات کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا اس کے علاوہ یک دم الیکشن ختم ہونے کے بعد سینیٹ کی عمارت کو کرونا (کورونا) کی وجہ سے 18 تاریخ تک بند کیا جا رہا ہے۔ عمارت کا کنٹرول سکیورٹی عملے کے پاس ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت کنٹرول کا معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج ایک بہت بڑا ثبوت ہوگا اس بات کا کہ کون آیا اور کون گیا، کیمرےکس نے لگائے۔ سنجرانی کہہ رہے ہیں کہ کیمرے لگانا غلط تھا اور اس کی تحقیقات ہوں گی۔ تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ کیمرے ایک ڈراما تھا، اپوزیشن نے خود ہی لگائے لہذا کوئی سنگین معاملہ نہیں ہے۔ صادق سنجرانی نے مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے الیکشن کو صاف و شفاف منعقد کروانےکے لیے ہر حربہ استعمال کر لیا۔ تو کیا کیمرے الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے لگائے گئے؟
ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جس کی جتنی سیٹیں ہیں وہ انہیں ملی ہیں۔ پی ڈی ایم کی 51 سیٹیں بنتی تھیں اور حکومت کی 47۔ اگر ووٹ مسترد نہ ہوتے تو یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوتے۔ ان کا جیتنا بنتا تھا کیونکہ پی ڈی ایم کے نمبر اتنے تھے۔
ووٹ مسترد ہونا بھی ایک بڑا کھیل ہے۔ طلال چوہدری کے ٹوئٹ کے حوالے سے یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ کیا مسلم لیگ ن کے کچھ ممبران نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ ضائع کیے تاکہ پیپلز پارٹی کو سبق سکھایا جاسکے؟ وہ جو اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبدار ہونے کی بات کرتے ہیں تو ان کو پھر بھی ہرایا جا سکتا ہے۔ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنا مشکل ہے۔
ایک طرف تو حکومت اور پی ڈی ایم کا جنگ و جدل کے ختم ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ حالات شاید مزید بگڑیں۔ دوسری طرف یہ بات تو بالکل سو فیصد طے ہو گئی کہ انتخابی اصلاحات، ووٹنگ چاہے سینیٹ میں ہو چاہے قومی اسمبلی میں ہو جب تک اوپن نہیں ہوگی اس وقت تک یہ سب سلسلے جو ہم پچھلے مہینے دو مہینے سے دیکھ رہے ہیں جاری رہیں گے۔
اب اوپن ووٹنگ کی طرف جانا پڑے گا اور ملک کو اس طرف لے جانے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا نہیں تو یہ لڑائی، لڑائی اور لڑائی رہے گی اور ریفارم، ریفارم اور ریفارم ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔