سیاسی پارٹیاں، ریاستی ادارے اور عدلیہ صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ نظام کو ہم ’ریجیکٹڈ‘ جمہوریہ کہتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن کے معاملات کو ہی لے لیں۔ کسی پارٹی نے اپنے ارکان کو یہ نہیں بتایا کہ کس معیار اور اصول کے تحت پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کا چناؤ کیا۔
کیا ان پارٹیوں نے اپنے آئین پر عمل کیا اور اس کے مطابق ٹکٹ دیے؟ اگر یہ ٹکٹ پارٹی آئین کے مطابق نہیں دیے گئے تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان پارٹیوں کے امیدوار ہیں۔
الیکشن کمیشن نے، جس کے ذمہ عوام کے مفاد کا تحفظ ہے، بھی یہ زحمت نہ کی کہ ان پارٹیوں سے کہے کہ ٹکٹوں کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ یہ عمل پارٹی آئین کے مطابق ہوا اور کسی درخواست گزار سے زیادتی تو نہیں کی گئی۔
سارا زور اس بات پر ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں اپنی اخلاقی ساکھ اس معاملے میں کھو چکی ہیں۔ پی ڈی ایم کی پارٹیاں یہ نہ بتا پائیں کہ جو اصول میثاق جمہوریت میں طے کیا گیا اس پر عمل کیوں نہ ہو اور الیکشن کا عمل کھلا رکھا جائے۔
پی ٹی آئی، جو ویسے بھی بظاہر آئین کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، اس کے صدر نے دو سال میں کئی ایسے آرڈیننس جاری کیے جن کی آئینی حیثیت مشکوک تھی۔
ایک دفعہ پھر صدر عارف علوی نے ایک ایسا آرڈیننس جاری کیا جو پاکستان کی تاریخ میں آئین سے روگردانی کی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایک ایسا آرڈیننس جو سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔
سب سے اہم کردار سپریم کورٹ کا ہے۔ جب دو فریق کسی معاملے پر اتفاق نہ کرتے ہوں تو یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے پر آئین کی تشریح کرے، مگر ہماری سپریم کورٹ کی تاریخ اس معاملے میں بہت افسوس ناک ہے۔
نظریہ ضرورت کے تحت آمروں کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ سو موٹو شق کو استعمال کر کے پارلیمان کو قانون سازی پر ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی گئی۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لیے قانون سازی کے معاملے پر جو فیصلہ آیا اس میں آئینی حدود سے تجاوز کیا گیا۔
اب سینیٹ الیکشن کے معاملے پر بھی ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ تشریح سے بڑھ کر الیکشن کمیشن کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا قانونی ماہرین حامد خان، رشید رضوی اور بار ایسوسی ایشن کہہ رہی ہیں۔
ہمارے ججوں کی اخلاقیات، آئین اور قانون کی بالادستی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ جو چند جج کسی اصول پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور ان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے 2018 میں سینیٹ کے براہ راست الیکشن کی تجویز پارلیمان کی کمیٹی کو دی تھی، جس کے ذمہ انتخابی اصلاحات تھیں مگر انہوں نے اسے رد کر دیا۔
موجودہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کا عوام اور ان کے مسائل سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں۔ یہ رہیں یا نہ رہیں عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
عوام میں غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف ان کے جیالے ہی انہیں پسند کرتے ہیں، قوم کی اکثریت اب انہیں اپنے مسائل کی جڑ سمجھتی ہے۔
حل نظام کو درست کرنے میں ہے۔ بار بار جعلی الیکشن کروانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اگر سیاست دان نظام کو نہیں بدلیں گے تو عوام اس نظام کو توڑ کر فیصلہ سازی اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ خطرہ ہے کہ یہ تبدیلی پر امن نہیں ہوگی بلکہ خونی ہوگی۔
نوٹ: یہ مصنف کے ذاتی خیالات ہیں اور ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔