بنوں: چرواہے کے کتے نے چار لاشوں کا پتہ لگایا، واقعہ ایک معمہ

مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان پچھلے سال بھی اسی طرح شکار کے لیے نکلے تھے جنہیں تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کیا تھا۔ بعد میں ان ہی چار نوجوانوں کی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان نوجوانوں کو کب ، کیسے اور کس نے قتل کیا  (تصاویر: روفان خان)

خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں 21 مارچ کی صبح چار نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کا معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا جبکہ واقعے کے خلاف قبیلہ جانی خیل کی جانب سے علاقے میں واقع فوجی قلعے کے باہر گذشتہ رات سے جاری احتجاج تاحال جاری ہے۔

بنوں پولیس کے مطابق چاروں لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق چاروں نوجوانوں میں سے ایک کو ذبح کرکے، دوسرے کو گولی مار کر اور باقی دو لڑکوں کو پتھر مار کر قتل کیا گیا ہے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے۔

تھانہ جانی خیل کے ایڈیشنل ایس ایچ او عمیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاشوں کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان ہیں، جن میں ایک کا سر جسم سے الگ کر دیا گیا تھا، جسے بعد میں پولیس نے آس پاس کے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران ڈھونڈا۔

چاروں نوجوانوں کو سہ پہر تین بچے دفنایا جائے گا، جب کہ علاقہ مکین اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

مظاہرے میں موجود ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ احتجاج اس لیے کیا جارہا ہے کہ علاقے میں آئے روز اس قسم کے واقعات معمول بن گئے ہیں، لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایف آئی آر میں ہماری خواہشات کے مطابق ردو بدل کی جائے اور قتل ہونے والے چاروں نوجوانوں کو شہدا پیکج دیا جائے۔‘

پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم کا عمل شروع ہونے سے قبل لاشوں کی مکمل شناخت نہ ہونے کے باعث وثوق سے پہچاننا مشکل تھا، تاہم علاقہ جانی خیل سے تعلق رکھنے والے چار خاندان یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ ان لاشوں کے ورثا ہیں۔

ایس ایچ او عمیر خان کے مطابق لاشوں کے ورثا نے دعویٰ کیا کہ چاروں نوجوان آپس میں دوست تھے اور 25 دن قبل گھر سے شکار کا کہہ کر نکلے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ورثا نے نوجوانوں کے اتنے دن سے غائب رہنے کے باوجود متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج نہیں کروائی تھی، لہذا گذشتہ روز جب ایک ویرانے سے چار لاشیں برآمد ہوئیں تو یہ خاندان ادھر پہنچ گئے اور دعویٰ کیا کہ یہ لاشیں ان کے گمشدہ نوجوانوں کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان پچھلے سال بھی اسی طرح شکار کے لیے نکلے تھے جنہیں تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کیا تھا۔ بعد میں ان ہی چار نوجوانوں کی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔

جانی خیل کے ایک اور پولیس اہلکار عمران اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتوار کی صبح ایک چرواہا جو اتمانزئی سب ڈویژن وزیر علاقہ جانی خیل میں واقع پویا کے ویرانے میں اپنے مویشیوں کو چرا رہا تھا کہ اس کے کتے نے ایک خاص جگہ پر رک کر بھونکنا شروع کیا اور ساتھ ہی وہاں سے ایک لاش کو باہر کھینچ لیا۔

عمران اللہ نے بتایا کہ چرواہے نے پہلے علاقہ مکینوں کو مطلع کیا جنہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔

مذکورہ پولیس اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب پولیس موقع پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ’چاروں لاشوں کو ویرانے میں تین فٹ کے ایک گڑھے میں دفنایا گیا تھا۔ پھر علاقہ مکینوں کی مدد سے لاشیں نکالنے کے بعد ان کو کفن پہنا دیے گئے اور ایک لاش جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا تھا، اس کی تلاش شروع کی گئی اور تب تک چاروں لاشوں کو ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔‘

لواحقین کے مطابق یہ چار لاشیں عاطف اللہ ولد زرنواز، احمد ولد تعلیم محمد، عبدالرحیم ولد مرغیداللہ، رازیم اللہ ولد عید نواز کی ہیں اور ان کا تعلق جانی خیل کے سکنہ ہندی خیل سے ہے۔

پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہے، جس کے مطابق لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔

بنوں پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان نوجوانوں کو کب، کیسے اور کس نے قتل کیا ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان