سب سے پہلے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔
ملاقات کے بعد جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں دونوں پارٹیوں نے قومی سیاسی مذاکرات کرنے کی بات کی۔ میں نے کئی دفعہ اس بات پر زور دیا کہ جماعت اسلامی کو قومی سیاسی مذاکرات منعقد کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں سے ملاقاتیں کرنی چاہییں۔ اس طرف پیش رفت اطمینان کی بات ہے۔
لیکن قابل تشویش بات تمام پارٹیوں کا صرف الیکشن اصلاحات پر توجہ دینا ہے۔ وہ صرف اسی موضوع پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے بھی یہ شکوہ ہے کہ وہ بھی صرف انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں۔ یہ بات میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ تک کئی دفعہ اپنے خطوط میں پہنچا چکا ہوں۔
الیکشن سے تمام پارٹیوں کا مفاد وابستہ ہے تو اس پر ان سب کی نظر ہے مگر قوم اور عوام کے جو مسائل ہیں، کیا وہ اہم نہیں ہیں۔ ان پر سیاسی مذاکرات کون کرے گا؟
سیاسی پارٹیوں کا یہی وہ خود غرض رویہ ہے جس کی وجہ سے ہم نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ قومی سیاسی مذاکرات قابل قبول نہیں ہوں گے جن میں ہم موجود نہ ہوں۔ ہمیں کسی سیاسی پارٹی پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ قومی مسائل حل کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ نہ صرف ان کا حال بلکہ ماضی کی غلطیاں بھی ہیں۔ جس طرح جماعت اسلامی نے جنرل ضیا کی حمایت کرکے عوام کو مایوس کیا اور آج تک اس کا حساب دے رہی ہے یا پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن لاڈلی بنتی رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر الیکشن قوانین ہی کی اصلاح کرنی ہے تو صرف الیکشن کے دن کے انتظامات ہی مدنظر کیوں ہیں؟ سیاسی پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کو یقینی بنانا اور پارٹیوں پر چند خاندانوں کا قبضہ کون چھڑوائے گا؟ پارٹیوں کے عہدے دار اور منتخب ارکان پارلیمان کے درمیان اختیارات کی تقسیم کون یقینی بنائے گا؟ پارٹیاں جن سے چندہ لیتی ہیں اور انہیں کثیر سرمائے کے بدلے کیا مفاد دیتی ہیں اس کا احتساب کون کرے گا؟ موجودہ فرسودہ حلقہ جاتی الیکشن کی بجائے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمان کا انتخاب کیوں نہ کیا جائے؟
اس پر بحث کب ہوگی؟ آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں دور رس اصلاحات کی ضرورت ہے جو کوئی سیاسی پارٹی نہیں کرنا چاہتی اور اسی لیے ہمیں مذاکراتی میز پر ہونا ضروری ہے۔ حکومت کی مجوزہ پارلیمانی کمیٹی برائے الیکشن اصلاحات کسی صورت منظور نہیں ہے۔
قومی سیاسی مذاکرات تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہوں گے اور اس میں کسی ایک پارٹی کو حکومتی اختیار کے ساتھ نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسی میز جس پر حکومت موجود ہو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے گی جو اچھی اصلاحات کے لیے انتہائی اہم ہے۔
قومی سیاسی مذاکرات صرف الیکشن اصلاحات کے لیے نہیں ہوں گے بلکہ پورے نظام کا احاطہ کیا جانا چاہیے جس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا توازن، ٹیکس کی تقسیم، صوبوں کی ترتیب، بلدیاتی نظام اور ریاستی اداروں کی تعمیر جیسے اہم نکات شامل ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قوم اس وقت ان سے سخت ناراض ہے اور ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ تمام مسائل پر قومی مذاکرات ہوں اور اس کے بعد ان پر عمل درآمد کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے اور سیاسی ضابطہ اخلاق بھی سب مل کر بنائیں۔
سیاسی رویے جو ذاتی دشمنی تک پہنچ چکے ہیں، انہیں بدلنا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں عوام اور سیاست دانوں میں اعتماد پیدا ہوگا اور ایک حقیقی جمہوریہ قائم ہوگی، جس کی جڑیں عوام میں ہوں گی۔ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ سیاست دانوں کا کام ہے۔