انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک کی اگلی قسط حاضر ہے۔ اس میں ہم نے دیکھا ہے کہ بقیہ پاکستان میں موجود جعلی سکولوں کی روایت علاقہ غیر میں کس حد تک موجود ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں کے سکولوں میں ہزاروں ایسے کلاس فور ملازمین بھرتی کیے گئے ہیں جن کی عمریں تین سے دس سال کے درمیان ہیں۔
حکام کے مطابق پرائمری سے لے کر ہائی سکولوں تک کلاس فور ملازمین کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے جن میں سے 20 فیصد یعنی تقریباً دو ہزار سے زیادہ کو کم عمر میں بھرتی کیا گیا۔
ڈائریکٹر تعلیم ہاشم خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکول مالکان نے اُس وقت کے ایجوکیشن عملے کی ملی بھگت سے جعلی دستاویزات تیار کرکے بھرتیاں کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف یہی نہیں بلکہ درجنوں ایسے ملازمین بھی سامنے آئے ہیں کہ جن کا کوئی وجود ہی نہیں تاہم وہ سالہا سال سے تنخواہ لے رہے ہیں۔
ہاشم خان آفریدی کے مطابق چند دن پہلے ضلع خیبر سے ایک ملک آئے جنھوں نے خود کو ایک سرکاری پرائمری سکول کا مالک بتایا اور مطالبہ کیا کہ انھیں اپنے سکول کے ایک کلاس فور ملازم کی پنشن چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب ان سے کہا گیا کہ اُس ملازم کو لے کر آئیں تاکہ ان کی کاغذی کارروائی مکمل کی جائے جس کے لیے انگوٹھے کے نشان کی ضرورت بھی ہوگی تو اُس ملک کا جواب تھا کہ یہ نوکری اس نے ایک فرضی نام سے لی تھی جس کی اب پنشن بھی بن گئی ہے۔ ’حقیقت میں اس نام سے کوئی بندہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔‘
خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل سیکریٹری ایجوکیشن نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تمام کلاس فور نوکریاں ایف سی آر میں اجتماعی اور ملکیت کی ذمہ داری کے تحت دی گئی تھیں۔ ’جس شخص کی زمین پر سکول بن جاتا کلاس فور نوکری اس کا حق ہو جاتا تھا۔ پھر اس کی مرضی تھی کہ وہ نوکری کسی کے بھی نام لیتا خواہ وہ محض کاغذوں میں ہی کیوں نہ ہو، یا پھر وہ کسی چھوٹے بچے کے نام پر نوکری لے لیتا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اجتماعی اور ملکیت کی ذمہ داری ختم ہوگئی ہے تو امکان ہے کہ چھوٹے بچوں کے نام پر لی گئی نوکریاں بھی ختم ہو جائیں گی۔
فاٹا سیکریٹریٹ کے مطابق قبائلی اضلاع کے تعلیمی اداروں میں سکول مالکان نے اپنے خاندان کے دو ہزار سے زائد ایسے بچوں کے ناموں پر نوکریاں لی ہیں جن کی عمریں جب 20 سال ہو جاتی ہیں تو وہ ریٹائر ہو کر نوکری کسی دوسرے کے نام منتقل کر دیتے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم کے مشیر ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ یہ ایک نیا مسئلہ سامنے آگیا ہے اور وہ اس کا تمام ریکارڈ جمع کر رہے ہیں۔ ’امید ہے کہ بعد میں اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘ انہوں نے یقین دلایا کہ ان تمام بدعنوانیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
قبائلی اضلاع کے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ تمام محکموں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے لیکن اب انضمام کے بعد صوبائی حکومت قبائل کو ریلیف دے گی۔ ’ان غیرقانونی نوکریوں کو قانونی شکل دی جائے گی اور کسی کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ یہ افراد خود ہمیں بتائیں گے کہ انہیں کس طرح ایڈجسٹ کیا جائے۔‘
عام تاثر یہ ہے کہ یہ بدعنوانی محض محکمہ تعلیم تک محدود نہیں بلکہ دیگر سرکاری اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
سابق قبائلی علاقوں میں کُل 5 ہزار 890 سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں ڈگری کالج شامل نہیں، ان میں سے 5 ہزار 573 تعلیمی ادارے کھلے ہیں جبکہ 360 بند پڑے ہیں۔
محکمۂ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق 3 ہزار 280 تعلیمی ادارے لڑکوں کے جبکہ 2 ہزار 420 لڑکیوں کے چل رہے ہیں۔ اس طرح 184 لڑکوں کے اور 130 لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ قبائلیوں نے انہیں حجرہ یا مہمان خانہ بنا رکھا ہے۔
محکمہ تعلیم کے مطابق فعال تعلیمی اداروں میں 4 ہزار 680 پرائمری تعلیمی ادارے، 521 مڈل، 347 ہائی سکولز، 21 ہائر سیکنڈری سکولز اور چار ایلیمنٹری کالج شامل ہیں۔
360 غیر فعال تعلیمی اداروں میں سے 271 لڑکوں کے جبکہ 163 لڑکیوں کے شامل ہیں۔
ان تمام تعلیمی اداروں میں تقریباً پونے سات لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
قبائلی اضلاع میں تعلیمی اداروں کی زمینیں مخصوص لوگوں کی ملکیت ہیں، جس کی زمین پر سکول تعمیر کیا گیا ہے وہ شحص اُس سکول کو اپنی ملکیت سمھجتا ہے اور کلاس فور نوکریاں ان کو ہی دینی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی سکول بند ہونے یا ٹیچر کے غیر حاضر ہونے پر آواز اُٹھائی جائے تو سکول کے مالک سامنے آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سکول تو اس نے خریدا ہوا ہے۔
اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اگر کسی گاؤں میں سکول کے مالک کے کسی دوسرے پڑوسی سے تعلقات اچھے نہیں تو وہ اپنے بچوں کو بھی اس سکول میں نہیں جانے دیتے۔ اس کے علاوہ وہ سکول کے مالک حکومت کو نہیں بلکہ اس شخص کو قرار دیتے ہیں جس کی زمین پر سکول تعمیر کیا گیا ہو۔