تحریک انصاف حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) اپنی پیدائش کے پہلی ششماہی کے اختتام پر ہی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
پی ڈی ایم میں اختلافات کی شروعات دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز سے ہوئی جو حال ہی میں پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں رہنما حزب اختلاف کے چناو پر کھل کر سامنے آئے، اور اتحاد کے ٹوٹنے کی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’اگر یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے تو پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی، لیکن ہم (پیپلز پارٹی) نہیں چاہتے کہ ایسا ہو، کیونکہ ہم اس کا اہم حصہ ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے تمام فیصلوں سے پی ڈی ایم کو فائدہ پہنچا اور حکومت کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی تو استعفوں سے متعلق بھی ہماری تجویز پر غور کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں نے پی ڈی ایم بنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم محض دو ماہ بعد ہی اتحاد میں شامل پارٹیوں کے سربراہان پر مشتمل فیصلہ ساز سربراہی کمیٹی کے رکن پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے محسن داوڑ نومبر2020 سے پی ڈی ایم کا حصہ نہ رہے۔
جمعے (3 اپریل) کو پی ڈی ایم کی پانچ رکن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے ایک اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ نواز، جمیعت علما اسلام فضل الرحمان، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل پر مشتمل حکومت مخالف اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس نے پی ڈی ایم سے پاکستان پیپلز پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی کو سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے لیے حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی پانچ جماعتوں پر مشتمل ستائیس سینیٹرز نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ڈی ایم میں دوسری جماعتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ’ہم حکومت مخالف اتحاد بنا اور احسن طریقے سے چلا سکتے ہیں۔‘
سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی لیڈر اعظم تارڑ نے ایک بیان میں کہا کہ حزب اختلاف کی مذکورہ پانچ جماعتوں کے 27 سینیٹرز ہیں اور انہوں نے نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بتایا کہ حزب اختلاف کے نئے اتحاد میں پی ڈی ایم کی آٹھ جماعتیں شامل ہوں گی۔
پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی علیحدگی کی صورت میں گیارہ جماعتوں سے شروع ہونے والی پی ڈی ایم میں زیادہ سے زیادہ آٹھ پارٹیاں رہ جائیں گی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ نوازسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر اپنا حق سمجھتی ہے جبکہ یہ عہدہ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے حاصل کر لیا، اور ان پر حکومتی سینیٹرز کی حمایت لینے کا الزام لگتا ہے۔
مسلم لیگ نواز نے اشارے دیے ہیں ہے وہ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو لیڈر آف اپوزیشن تسلیم نہیں کرتے، جس پر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف کو لیڈر آف اپوزیشن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
پانچ جماعتوں کے فیصلے کے برعکس پیپلز پارٹی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
چوہدری منظور نے سوال اٹھایا کہ کوئی کیسے کسی جماعت کو پی ڈی ایم میں سے نکال سکتا ہے؟ ’پی ڈی ایم سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے اس میں سے کسی کو نکالا نہیں جا سکتا اور نہ کسی کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی سٹئیرنگ کمیٹی کسی بھی رکن جماعت کو شو کاز نوٹس جاری کر سکتی ہے ور رکن جماعت کو اتحاد میں سے نکال بھی سکتی ہے۔
چوہدری منظور نے محسن داوڑ کے نکالے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ پی ڈی ایم سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے، جبکہ محسن داوڑ کا الیکشن کمیشن کے پاس کسی رجسٹرڈ جماعت سے تعلق نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم میں تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہونا طے پایا تھا نہ کہ اکثریت سے، اور سیاسی اتحادوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور یہ تمام باتیں محض دباو ڈالنے کے طریقے ہیں۔ ’5 اپریل کو ہماری مجلس عاملہ کا اجلاس ہے میں کوئی بھی فیصلہ ہو وہ ہم پی ڈی ایم میں لے کر جائیں گے۔‘
تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ نواز کے لیے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کا وجود ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور اسی لیے صورت حال کو ایسی سمت میں دھکیلا جا رہا ہے کہ اتحاد ٹوٹ جائے۔
ویب سائٹ ہم سب کے ڈائریکٹر نیوز محمد آصف میاں (وسی بابا) کا کہنا تھا کہ اب بات 2023 کے انتخابات کی طرف جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ حزب اختلاف تحریک انصاف حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
’اگر پی ڈی ایم رہتی ہے تو انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو دوسری جماعتوں خصوصا پیپلز پارٹی کو پنجاب میں آکاموڈیٹ کرنا پڑے گا، یعنی انہیں سیٹیں دینا پڑیں گی، اور وہ ایسا کیوں چاہیں گے۔‘
اختلافات کیا ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور جمیعت علما اسلام فضل الرحمان کو پی ڈی ایم میں شامل بڑی اور زیادہ اہم جماعتیں تصور کیا جاتا ہے۔
پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت سے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں اسمبلیوں سے استعفوں کے مسئلے پر اختلافات پائے جاتے تھے۔
رکن اسمبلی محسن داوڑ، جو پی ڈی ایم کے پہلے سربراہی اجلاس میں موجود تھے، نے کہا کہ استعفوں سے متعلق شروع سے دو بڑی جماعتوں کے درمیان رائے کا اختلاف موجود تھا، اور اس پر بحث بھی ہوئی۔ ’لیکن کوئی اتفاق نہ ہونے کی صورت میں اس مسئلے کو بعد کے لیے اٹھا دیا گیا تھا۔‘
پیپلز پارٹی شروع سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں نہیں تھی جبکہ مسلم لیگ نواز صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے استعفے دینے کو حکومت گرانے کے لیے حتمی قدم تصور کرتی رہی ہے۔
دونوں جماعتوں میں اختلافات کی نئی لہر سینیٹ میں چئیرمین اور لیڈر آف اپوزیشن کے انتخابات میں پیدا ہوئے۔
مسلم لیگ نواز کے مطابق سینیٹ چئیرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی، ڈپٹی چئیرمین جے یو آئی اور لیڈر آف اپوزیشن مسلم لیگ نواز کو دینے کا فیصلہ ہوا تھا، تاہم پیپلز پارٹی اس موقف کو رد کرتی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ چئیرمین کے انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ نے لیڈر آف اپوزیشن کے لیے اپنے امیدوار کا نام دیا، لیکن پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کے لیے کام شروع کر دیا اور سینیٹ میں اپنی اکثریت اور دوسری جماعتوں کی مدد سے وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔