یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
14 دسمبر 2020 ڈیرہ بگٹی جہاں ایک عرصہ دراز سے بری خبروں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہیں سے ایک نوزائیدہ بچے کی تصویر کے ساتھ ایک خبر نشر کی گئی: ’پی پی ایل ویلفیئر ہسپتال سوئی میں پہلا سی سیکشن (آپریشن کے ذریعے زچگی) کامیاب۔‘
جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں 2020 کی جہاں سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مصنوعی دل سے لے کر مصنوعی بالوں کی پیوندکاری کی ریسرچ اور کامیابیوں کے قصے عام ہوچکے ہیں۔
14اپریل 2018 یہی ڈیرہ بگٹی اور پھر ایک خبر کہ کوہلو کے رہنے والے صدام بگٹی کی اہلیہ اور ان کا بچہ دوران زچگی دم توڑ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں تھی۔ ڈیرہ بگٹی کے حوالے سے یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی گو کہ اس کیس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ڈیرہ بگٹی کے اس اہم ترین ہسپتال میں آج تک کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہی نہیں۔
اس مخدوش حالت ہسپتال کا سرے سے اپنا کوئی وجود ہی نہیں اور وہ خود کو RHC کی عمارت میں سموئے ہوئے ہے۔ یہاں موجود ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اعظم بگٹی کے مطابق ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ کئی اہم ضروریات کا اس ہسپتال میں فقدان ہے۔ ’صحت سے متعلق بنیادی سہولیات جن میں مرض کی تشخیص کے لیے ہسپتال میں ایک لیب کی موجودگی ضروری ہے وہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔‘
جب ہم ڈیرہ بگٹی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں کی گونج اٹھتی ہے اور یقیناً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر یقینی صورت حال میں زخمیوں کو فوری طور پر ٹراما سینٹر یا سرجری کی ضرورت پڑتی ہوگی تو مریضوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ڈاکٹرز کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ ڈاکٹر کاظم بگٹی کے مطابق صرف ڈیرہ بگٹی کے ایک ضلع میں اس طرح کے حادثات سے متاثر افراد کی جو زندگی بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں تعداد 70 سے زیادہ ہے۔
کم و بیش یہی حالات ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اوتھل میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تربیت یافتہ سٹاف کی کمی، 80 ہزار سے زائد آبادی کے ہسپتال میں کوئی اینس تھیزیا کا ڈاکٹر موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی سرجری ممکن نہیں ہے۔ ہسپتال کے ہیڈ ڈاکٹر رزاق رونجھہ کے مطابق ہسپتال کا سالانہ بجٹ صرف 6 سے 7 لاکھ روپے ہے جس کی وجہ سے وہ ہسپتال میں او پی ڈی یا معمول کی ڈلیوری سے بڑھ کر کوئی سہولت دینے سے قاصر ہیں۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ آپ کراچی یا ملک کے کسی بھی بڑے شہر کا رخ کریں تو آپ کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مریضوں کی بڑی تعداد نظر آئے گی۔ یقیناً ان میں سے اکثر مریضوں کے لیے ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیس کے علاوہ رہائش اور علاج کی غرض سے دیگر اخراجات اٹھانا بھی مشکل بات ہے۔
امینہ بی بی لسبیلہ کی رہائشی کچھ عرصہ قبل کتے کے کاٹنے کے سبب انتقال کرگئیں۔ اس کی اہم وجہ بروقت انجکشن کی عدم دستیابی تھی۔
محکمہ صحت بلوچستان میں بظاہر مبینہ کرپشن اس صورت حال کی اہم وجہ بتائی جاتی ہے۔ اس صوبے میں ملیریا، پولیو، ٹائیفائیڈ اور دیگر کئی بیماریوں کے لیے ایک خاطر خواہ رقم مقرر کی گئی ہے۔ وہاں آج تک ہم نہ بلوچستان سے پولیو کا خاتمہ کر پائے ہیں نہ ہی ہم نے ملیریا اور خسرہ جیسی وبا کے سلسلے میں کوئی اہم کامیابی حاصل کی ہے۔
اس سلسلے میں قومی احتساب بیورو نے کتے کے کاٹنے کی ویکسین کی جعلی خریداری اور اس میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزام میں ڈی جی ہیلتھ شاکر بلوچ اور ایم ایس شیخ خلیفہ بن زید ہسپتال سے عبدالغفار بلوچ کو گرفتار کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں+ نے دو لاکھ چوالیس ہزار انجکشن خریدنے کی غیر قانونی منظوری دی اور بعد ازاں دیگر ملزمان کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو 40 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا (اینٹی ریبیز انجکشن صرف صوبائی حکومت یعنی سرکاری ہسپتالوں کو دیئے جاتے ہیں)۔
دسمبر 2019 اور کوئٹہ کے سول ہسپتال کے بستر پر لیٹا ایک خاص مریض ناقص انتظامات کی دہائیاں دے رہا ہے۔ یہ کوئی عام مریض ہوتا تو ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ حکومتی اراکین بھی اسے تنقید کا نشانہ بنانے اور صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے لیکن اس بار یہ مشکل تھا۔ وزیر اعلی بلوچستان کو خود مریض سے ملاقات کے لیے آنا پڑا۔ یہ مریض کوئی اور نہیں بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور سابق قائم مقام وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو تھے۔
قدوس بزنجو کے مطابق کوئٹہ کے اس اہم ترین ہسپتال میں جہاں گندگی کا ڈھیر تھا کسی بھی قسم کی صفائی اور مریض کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ ہسپتال کا عملہ بھی انتہائی کم تھا اور مجبوراً انہیں یہ پیغام بستر میں پڑے رہ کر جاری کرنا پڑا کہ جب ہم یہاں علاج نہیں کروا سکتے تو پھر بھلا عام عوام کو کیا خاک طبی سہولیات حاصل ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضیا بلوچ کا تعلق ہارڈ نامی ایک فلاحی تنظیم سے ہے۔ وہ ضلع پنجگور کے رہائشی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے شہر سے سابق صوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ منتخب ہوئے تھے اور آپ پنجگور کا ڈسٹرکٹ ہسپتال دیکھ آئیں تو پچھلے سارے اضلاع کے ہسپتالوں کو بھول جائیں گے۔
قومی احتساب بیورو بلوچستان نے پھر سابق وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کے کروڑوں روپے کے مبینہ اثاثوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ سابق وزیر صحت پر اپنے بھائیوں، رشتہ داروں کے نام پر اکاﺅنٹس بنا کر 28 کروڑ روپے سے زائد رقم خرد برد کرنے کے الزام عائد ہیں۔ یہ تحقیقات نیب نے یقیناً سابق وزیر کے لائف سٹائل کو مدنظر رکھ کر کی ہوں گی۔ وہ اسے اپنے بیرون ملک کاروبار کے مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
صالح بلوچ کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔ اس سلسلے میں جب پارٹی ترجمان سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کا ایک سادہ سا جواب دیا کہ یہ انتقامی کارروائی ہے جو کہ نیب ہر دور میں کرتا آ رہا ہے۔ جب ہم نے خالد لانگو کے کیس کی طرف اشارہ کیا کہ کیا وہ بھی ایک انتقامی کارروائی تھی کیونکہ اس کیس میں تو مجرم اپنا الزام قبول کر کے پلی بار گین کے تحت بری ہو چکا ہے تو ترجمان کا جواب تھا کہ اس کیس کی نوعیت مختلف تھی۔
ان دونوں کیسز میں ایک واضح فرق رقم کا ہے۔ بہرحال مقدمہ چل رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کیا اس کیس کا نتیجہ کچھ مختلف ہوگا یا ماضی والا ہی ہوگا۔
بلوچستان میں جہاں بعض سیاست دانوں نے مال مفت دل بےرحم کے فلسفے پر عمل کیا تو وہاں چند ڈاکٹرز نے کبھی بیوروکریسی تو کہیں سیاست دانوں کے منظور نظر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعبے اور اپنے صوبے کا استحصال کیا۔ جب ہم نے صوبائی سیکریٹری صحت نور بلوچ سے بلوچستان میں ’گھوسٹ‘ یا غیرحاضر ڈاکٹرز کی فہرست طلب کی کہ اس بابت تحقیقات کی جاسکے تو سیکریٹری نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لفظ غیرحاضر استعمال کرسکتی ہیں لیکن گھوسٹ نہیں۔
میرے لیے یہ جاننا اب انتہائی مشکل ہوگیا ہے کہ کئی ڈاکٹرز جن میں لیڈی ڈاکٹرز بھی شامل ہیں پہلے تو خوب ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ وہ ڈیوٹی صرف بلوچستان کے بارڈر ایریاز (حب، ڈیرہ بگٹی، بارکھان) جیسے شہروں میں حاصل کریں (کیونکہ یہاں سے کراچی اور پنجاب کے شہروں) میں رہنا آسان رہتا ہے یا پھر وہ آپ اپنے مقامی علاقوں میں ڈیوٹی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ان چند ڈاکٹرز کے لیے مزید خوش آئند بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس کے بعد دنیا آپ کے لیے ایک کھلا دروازہ بن جاتی ہے۔ خلیج، ایشیائی ممالک آپ کو ویلکم کہتے ہیں بس سال میں ایک بار اپنے علاقے کا چکر لگا آئیں اور سالانہ تنخواہ جیب میں۔
دوران تحقیقات میری نظر میں ایسے کیس بھی گزرے ہیں کہ ڈاکٹرز کے اپنے رشتہ دار محکمہ صحت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور وہ اس مبینہ ملی بھگت کا اہم حصہ ہیں۔ میرے کئی روز استفسار کے باوجود وزیر صحت نور بلوچ وعدے کے باوجود بھی ہمیں ڈاکٹرز کی لسٹ مہیا نہ کر سکے۔
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ نیب عمومی طور پر کسی بھی حکومت کے جانے کے بعد جاگتا ہے اور پھر میگا کرپشن میں ملوث ملزمان پلی بار گین کا سہارا لے کر بری ہو جاتے ہیں۔ عوام پھر وہیں پتھروں کے قدیمی دور میں کھڑی رہ جاتی ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ گذشتہ ڈھائی سالوں سے محکمہ صحت وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ ان کے پاس کئی دیگر اہم محکمے بھی ہیں جن کی تعداد 18 کے قریب ہے۔ وہ ان محکموں سے کتنا انصاف کر پاتے ہوں گے؟
جہاں یہ صوبہ صحت سے متعلق زبوں حالی اور کرپشن میں جکڑا ہوا ہے وہاں پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹو (پی پی ایچ آئی) اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہے۔ بلوچستان ہائی وے میں حادثات کی صورت میں جہاں اس وقت دہشت گردی سے زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ کسی حادثے کی صورت میں فوری طور پر امدادی سہولیات مہیا کرنا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے اسی محکمے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عزیز جمالی کی محنت نے یہ ثابت کر دیا کہ جہاں چاہ ہو وہاں راہ بن جاتی ہے۔
ڈیرہ بگٹی کا ویل چیئر پر بیٹھا احمد بگٹی ہو یا اوتھل کی کینسر کے مرض میں مبتلا ماسی نمر یہ سب مقامی افراد یہ چاہتے ہیں کہ صحت کی سہولت انہیں ان کے مقامی علاقوں میں حاصل ہو اور انہیں ملک کے دیگر حصوں میں ذلت نہ اٹھانی پڑے۔ یہی ڈاکٹرز جو بلوچستان سے سرکاری تنخواہ لیتے ہیں وہ اپنی غیر حاضریاں چھوڑ کر اپنے صوبے کے لوگوں کی خدمت کریں۔