اس سال 23 مارچ کو جب اہل وطن 81 واں ’یوم پاکستان‘ منا رہے تھے تو ہزاروں میل دور غصب شدہ فلسطین کی سرزمین پر بننے والی صہیونی ریاست [اسرائیل] میں دو برس سے بھی کم عرصے کے دوران چوتھے پارلیمانی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔
اسرائیلی انتخابات کے لیے چلائی جانے والی مہم میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتے رہے۔ لیکن اصلی اور جوہری نوعیت کی تبدیلی کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ آخر کار 23 مارچ کو صہیونی ووٹرز نے ثابت کیا کہ وہ اقتدار صرف اس کو سونپیں گے جس نے فلسطینیوں کا خون بہایا ہو اور آئندہ پہلے سے بھی بھرپور ارادے کے ساتھ ایسا کرنے کے لیے تیار ہو۔
نسل پرستی، ناجائز قبضے اور خونخواری کا یہ ملا جلا جذبہ اسرائیلی معاشرے میں سب سے بڑی طاقت، سب بڑا ہتھیار اور جیتنے کے لیے سب سے اہم نعرہ ہی نہیں، سب سے قوی سہارا بھی ہے۔
15 ستمبر 2020 کو امریکہ میں ’معاہدہ ابراہیمی‘ پر دستخط کے موقع پر ہونے والی نیتن یاہو کی پذیرائی نے ایک طرح سے اسی صہیونی سوچ کی مزید تائید کر دی اور بالآخر وہی ہوا جو اسرائیل کا معمول رہا ہے۔
فلسطینیوں کا سب سے بڑا قاتل بننے کی سند پا لینے والے اور اگلے برسوں میں ایک بار پھر ایسا کر دکھانے کا ارادہ رکھنے والے نیتن یاہو نے اپنے فلسطین کش مذموم ارادے کا اعلان عین الیکشن کے موقع پر پوری وضاحت اور دھڑلے سے کیا۔
اس کا کہنا تھا ’میرے ہوتے ہوئے فلسطینی ریاست نہیں بن سکتی۔‘ اس کا اثر یہ ہوا کہ اقتدار سے بظاہر دور ہونے والا وزیر اعظم ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے لیے ’کوالیفائی‘ کرنے کے قریب پہنچ گیا۔
بنیامین یاہو نے عین انتخابی مرحلہ شروع ہونے پر ببانگ دہل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس یہ اعلان کیا ’میرے ہوتے ہوئے فلسطینی ریاست نہیں سکتی‘‘، اس نعرے اور بڑھک نے اس کی ڈوبتی نیا کو سہارا دیا۔ جو انتخابی جائزے اسے محض 22 سے 24 تک نشتیں ملنے کا اظہار کر رہے تھے اور انتخاب سے پہلے ’لیکوڈ پارٹی‘ کو چند نشستوں تک محدود بتاتے ہوئے اس کے مقابل صہیونی اتحاد کو 25 نسشتوں کے ساتھ آگے دکھا رہے تھے، غلط ہو گئے۔
نیتن یاہو، اسرائیل میں بار بار وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والی صہیونی شخصیات ڈیوڈ بن گوریان، گولڈا مئیر اور شمعون پیریز کے گروہ میں تو پہلے ہی شامل تھے اب امکان بن رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے طویل تر مدت کے لیے حکمران رہنے کا ’خونی اعزاز‘ بھی حاصل کر لیں۔ اگرچہ ان کی نشتیں اتنی نہیں ہیں کہ 120 ارکان پر مشتمل ’کنیسٹ‘ میں اسے سادہ اکثریت حاصل کرنے کا نام دیا جا سکے۔
اسرائیل چونکہ دنیا بھر سے آئے یہودیوں کی وجہ سے چوں چوں کا مربہ ہے اس لیے اس کے ہاں بدترین نسل پرستی صرف صہیونی ہونے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ نسل پرستی کی علاقائی شناختیں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
گویا ایک عملی خانہ جنگی تو اس صہیونی معاشرے میں فی الحال معرض التوا میں ہے لیکن سیاسی وانتخابی جنگ میں اس کا اظہار کسی نہ کسی صورت ضرور ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 1949 سے آج تک اسرائیل کی 24 منتخب اسمبلیوں [کنیسٹس] میں سے صرف 1960 کی دہائی میں بننے والی ایک اسمبلی واضح اکثریت حاصل کر پائی تھی۔ اس کی وجہ 1967 کی عرب۔اسرائیل جنگ بنی تھی کہ اس وقت کی حکمران گولڈا مئیر نے عربوں کو شکست دے کر ایک بہت بڑے ہی نہیں غیر معمولی اہمیت کے حامل علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس ’عالمی قبضہ گروپ‘ نے خوش ہو کر 63 نشتیں دے دی تھیں۔ اس ’اکلوتی سادہ اکثریت‘ سے پہلے اور بعد میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی جماعت یا اتحاد کو اسرائیلی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہو سکی ہو۔
حالیہ انتخاب کے نتیجے میں جو صورت حال [اب تک] سامنے آئی ہے اس میں بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کو 30 اور ان کے حلیف کٹر قدامت پسند جماعتوں کے اتحاد نے 16 جبکہ انتہائی دائیں بازو کے مذہبی صہیونی اتحاد کو 06 نشتیں ملیں۔ اس طرح 120 کے ایوان میں نیتن یاہو کو 57 کے مقابلے میں 52 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
نیتن یاہو کو سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی خاطر اسلام پسند یونائیٹڈ عرب لسٹ (رعام) کے منصور عباس اور مذہبی قوم پرست رہنما نیفتالی بینیٹ کی حمایت بھی درکار ہو گی، جن کے پاس سات نشستیں ہیں۔ جبکہ ان کی حریف جماعت یش ایتد کو بھی حکومت سازی کے لیے منصور عباس یا نیفتالی بینیٹ کی مدد لینی پڑے گی۔
دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں مسٹر یاہو کو اگرچہ کافی مشکلات رہیں گی لیکن جس طرح کی بے اصولی پر مبنی سیاست سے گٹھ جوڑ کا اسرائیل میں رواج رہا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی سودا کاری کے انداز میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ جماعت لیکوڈ پارٹی بھی ہو سکتی ہے اور نیتن یاہو مخالف اتحاد بھی۔
تاہم نتیجہ کسی کے بھی حق میں رہے، یہ واضح ہے کہ ماضی کی طرح ایک ’لولی لنگڑی‘ حکومت ہی تشکیل پا سکے گی۔ اسی کمزور حکومت کا نتیجہ ان پرتشدد فیصلوں کی صورت میں سامنے آتا ہے جو فلسطینیوں کے کشت وخون اور اسرائیل کی نسل پرستانہ جنگوں کا ذریعہ بنتے ہیں کہ ایک کمزور حکومت اپنے آپ کو زیادہ صہیونی بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں سینکڑوں بےگناہ فلسطینیوں کی جان لے لیتی ہے۔ اس کی مثالیں ماضی میں غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگیں ہیں۔
اسرائیل کے اندر نیتن یاہو اپنی 30 نشتوں اور اتحادیوں سے ووٹ مانگ تانگ کر اگر حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو انہیں جس طرح کا خوف اپنی انتخابی مہم کے دوران لاحق رہا ہے اس سے بڑھ کر یہ خوف رہے گا کہ اب اسرائیلی سیاست سے ان کا دانہ پانی ختم ہونے جا رہا ہے کیونکہ ان کے خلاف کرپشن کے کئی ایک مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔
جس روز اسرائیلی صدر ریووین رولین نیتن یاہو کو وزیر اعظم نامزد کر رہے تھے تو عین اسی دن منہ پر سیاہ ماسک لگائے بنیامین یاہو عدالت میں اپنی کرپشن اور کالے کرتوتوں کا دفاع کرنے کو موجود تھے۔
قرآن کریم سے اپنی بدعہدی اور بدعنوانی کی سند پانے والی اسرائیلی قوم کی صفوں میں کرپشن کی غضب ناک کہانی کی داستان انتہائی طویل ہے، تاہم یہاں اسے معاصر صہیونی قیادت کی بدعنوانی تک محدود رکھنا ہی مفید رہے گا۔
ایہود باراک [1996] سے نیتن یاہو تک ہر اسرائیلی وزیر اعظم بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کا سامنا کرتے چلے آئے ہیں۔ نیتن یاہو، ایہود اولمرٹ، ارئیل شارون، ایھود باراک اور ایزر وائرمین سمیت متعدد اسرائیلی وزرا، ارکان پارلیمنٹ [کنیسٹ] اور میئرز سے بدعنوانی کے مقدمات کی تحقیقات ہوتی چلی آئی ہیں۔
اسرائیل میں [2006-2009] کی مدت کے دوران وزارت عظمی پر فائر رہنے والے ایھود اولمرٹ دھوکا دہی، کارپوریٹ ریکارڈ میں ہیر پھیر اور ٹیکس چوری جیسے الزامات کی پاداش میں 18 ماہ کی قید کاٹ رہے ہیں۔
نیتن یاہو پر وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں بدعنوانی کے متفرق الزامات لگتے رہے ہیں۔ پہلی وزارت عظمیٰ [1996-1999] کے دوران ان سے مختلف سرکاری سودوں میں کمیشن وصول کرنے اور ٹھیکوں کی منظوری کے لیے عہدے کے ناجائز استعمال کے الزامات سے متعلق تحقیقات ہوئیں۔
اس وقت انہیں دو الگ الگ مقدمات میں پولیس تحقیقات کا سامنا ہے۔ ان میں جرم ثابت ہونے پر انہیں لامحالہ جیل کی ہوا کھانا پڑ سکتی ہے۔ ایک مقدمے میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ ان کے خاندان اور خود انہوں نے مبینہ طور پر سیاسی حمایت کے عوض دو بڑی کاروباری شخصیات سے تین لاکھ امریکی ڈالر مالیت کے تحائف وصول کیے۔
ارب پتی آسٹریلوی جیمز پیکر اور سابق اسرائیلی ایجنٹ آرنن ملچن نے غیرقانونی کام کے عوض نیتن یاہو کو بطور وزیر اعظم، ان کی اہلیہ سارہ اور بیٹے یائر کو قیمتی شراب [شمپیئن]، سگار اور جواہرات تحفتاً پیش کیے تھے۔ مسٹر یاہو نے تحائف کی وصولی سے انکار نہیں کیا، تاہم ان کے بقول اس کے عوض انہوں کی کوئی رو رعایت نہیں برتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری تفتیش سے متعلق پولیس کا الزام ہے کہ نیتن یاہو نے ملک کے دوسرے بڑے مؤقر اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ سے مسابقت رکھنے والے معاصر اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ کے خلاف قانون سازی میں حمایت کے عوض ’یدیعوت احرونوت‘ میں اپنی مثبت خبروں کو اجاگر کرنے کا وعدہ لیا تھا۔
ایک اور کیس میں نیتن یاہو کی دی جانے والی گواہی انہیں ایسے سکینڈل میں پھنسا سکتی ہے، جس میں ان پر براہ راست ملوث ہونے کا شبہہ نہیں۔ تاہم بدعنوانی کے اس مقدمے میں ان کے کزن اور ذاتی وکیل ڈیوڈ شمرون پر دو ارب ڈالر مالیت کی جرمن آبدوز اور بحری لڑاکا کشتی کی خریداری میں کمیشن لینے کا الزام ہے۔
مقدمہ نمبر 4000 میں نیتن یاہو کے ایسوسی ایٹ اور اسرائیلی وزارت مواصلات کے ڈائریکٹر جنرل شولومو فلبر پر تل ابیب کی فون کمپنی [بزق] کو میرٹ سے ہٹ کر ٹھیکے دینے کا الزام ہے۔
سابق وزیر اعظم اس مقدمے میں براہ راست جوابدہ نہیں تاہم اٹارنی جنرل ’جھوٹے حلف نامے‘ کی وجہ سے ان کے خلاف اقدام کی سفارش کر سکتے ہیں۔ نتین یاہو کی اہلیہ سارہ پر بھی سرکاری فنڈ کے ناجائز استعمال کی پاداش میں فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔
اسرائیلی خاتون اول پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے قیصریہ میں ذاتی مکان کی تزئین وآرائش، اپنے والد کی دیکھ بھال کرنے والے طبی عملے اور نجی باورچیوں [شیفس] کو مکان پر ہونے والی خاندانی تقریبات میں دی جانے والی خدمات کا عوضانہ سرکاری خزانے سے دلوایا جس کی مالیت ایک لاکھ ڈالر بتائی جاتی ہے۔
یقیناً ایک طویل عرصے تک حکومت پر قابض رہنے والے شخص کے لیے اقتدار سے محروم ہو کر سزا کا تصور ہی سوہان روح ہوتا ہے۔ اس خوفزدگی کے نیتجے میں نیتن یاہو اپنے فلسطین مخالف عزائم کو ایک مرتبہ پھر بروئے کار لانے کی کوشش کر سکتے ہیں تاکہ اقتدار میں رہنے کا آئندہ برسوں میں بھی جواز بنا رہے۔
اس ناطے وہ یہودی بستیوں کی تعمیر کو باہر کے تمام تر دباؤ کے باوجود تیز کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ نیز فلسطینیوں کے خلاف جنگی جنون بھی ایک مرتبہ عملی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ جنگی جنون فلسطینیوں کے علاوہ یاہو کے حالیہ اعلانات کا آئنیہ دار بھی ہو سکتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو پر ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ ماضی کی حکومتوں نے عراق اور شام میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا لیکن نیتن یاہو، ایران کے خلاف صرف باتیں ہی کرتے رہے۔
خطے میں ایران مخالف جذبات پیدا کرنے میں خود ایران نے بھی حصہ ڈال رکھا ہے۔گویا اسرائیلی انتخابات ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کی طرح کسی نئے جنگی منصوبے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتے ہیں۔
نیتن یاہو کو اسرائیلی سیاست اور اقتدار میں زندہ رہنے کے لیے جنگجو وزیر اعظم کے طور پر جارحانہ کردار کا سہارا درکار ہوگا۔ وہ اس وقت فتح و شکست کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ساتھ انتقام اور رنج کے اندھے رحجانات بھی لیے ہوئے ہے۔
اگر وہ چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم بنے تو ایک جنگی اور جنونی وزیر اعظم بننا پسند کریں گے کیونکہ ان کی دانست میں اسرائیل میں آگے رہنے کی یہی ایک سبیل ہے۔