تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف گذشتہ روز سے جاری مظاہرے منگل کی صبح بھی جاری ہیں جس کے باعث لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت ملک کے کئی دیگر شہروں میں ٹی ایل پی کے کارکنوں کے احتجاج سے سڑکیں بند ہیں۔
میڈیا کو جاری بیان میں ترجمان ابن اسمعیل شامی نے منگل کو کہا کہ دھرنا جاری رہے گا اور اس کے ختم ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’ہمارے کارکن دھرنوں میں موجود ہیں اور قیادت کے حکم تک بیٹھے رہیں گے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ احتجاج کے خلاف ایکشن میں ملک بھر میں ٹی ایل پی کے کئی کارکن کی مبینہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
دوسری جانب پولیس ترجمان رانا عارف کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز لاہور کے مختلف علاقوں میں احتجاج کے دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والا پولیس کانسٹیبل محمد افضل تھانہ گوالمنڈی میں تعینات تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زخمیوں میں ڈی ایس پی قلعہ گجر سنگھ رضا حسین، ایس ایچ او گڑھی شاہو زبیر احمد اور ایس ایچ او گجر پورہ میاں انجم شامل ہیں۔
اس کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کے مختلف مقامات پر مذہبی جماعت کے کارکنان کا احتجاج جاری ہے جس کے بعد اٹھال چوک بہارہ کہو، لیاقت باغ، ترنول میں سڑک ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے اور کشمیر چوک ٹریفک کے لیے کھلا ہے مگر فیض آباد انٹر چینج کو بند کرنے کے پیش نظر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات ہے۔
احتجاج میں شدت کے پیش نظر کنٹینرز فیض آباد انٹر چینج پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ مری روڈ کو پہلے ہی کنٹینرز لگا کر مکمل بند کر دیا گیا ہے۔
جماعت کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کی پیر کو گرفتاری کے بعد ٹی ایل پی کی مرکزی قیادت نے کارکنوں کو احتجاجاً ملک بھر میں سڑکیں جام کرنے کی کال دی تھی، جس کے بعد لاہور، راولپنڈی، ملتان اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں کارکنوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کر دیا ہے۔
لاہور میں ملتان روڈ پر واقع ٹی ایل پی مرکز کے قریب سعد رضوی کی گرفتاری کے خلاف سڑک بلاک کرنے والے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کے بعد کارکنوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
ITP Traffic Alert !#HumSabKaIslamabad @ICT_Police @Ayesha_ITP @msarfrazvirk pic.twitter.com/ptZf84Ve8a
— SSP Traffic Islamabad (@SSPITP) April 13, 2021
لاہور کے 16 مقامات پر گذشتہ روز احتجاج جاری رہا، جس سے شہر کی بڑی شاہراہیں بند رہیں۔ سیکرٹری صحت پنجاب نبیل اعوان کے مطابق سڑکیں اور راستے بند ہونے سے سرکاری ہسپتالوں کو آکسیجن سلینڈروں کی سپلائی میں مشکل پیش آئی۔
سیکرٹری محکمہ صحت کے مطابق: ’لاہور کے ہسپتالوں میں کرونا کے 11سو مریض آکسیجن پر ہیں اور پانچ سے چھ گھنٹے کا بیک اپ موجود ہے۔ اگر سپلائی بحال نہ ہوئی تو خطرناک صورت حال ہو سکتی ہے۔‘
اسلام آباد میں منگل کو کچھ سڑکیں بند رہیں۔ ایس ایس پی ٹریفک کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق بارہ کہو چوک، ڈھوکری چوک، کشمیر چوک، ترنول، فیض آباد، آئی جے پی اور دیگر سڑکوں کے لیے متبادل راستے کھول دیے گئے ہیں۔
کوئٹہ میں انڈپینڈںٹ اردو کے نمائندہ ہزار خان کے مطابق ضلع خضدار میں مبینہ طور پر فائرنگ سے ٹی ایل پی کے کارکن کی ہلاکت کے بعد کوئٹہ کراچی شاہراہ بند ہے، جس کے باعث دونوں اطراف سے سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو کے مطابق منگل کو کراچی میں بیشتر مقامات پر احتجاج ختم کر دیا گیا، وہاں صبح صرف تین مقامات اورنگی ٹاون پانچ نمبر، کورنگی ڈھائی نمبر اور حب ریور روڈ پر دھرنے جارے رہے، جبکہ دھرنے کے دوران فجر کے وقت ٹاور پر فائرنگ میں آٹھ افراد زخمی ہو گئے تھے جنہیں علاج کے لیے سول ہسپتال لے جایا گیا۔
کراچی میں اس سے قبل پیر کو نمائش چورنگی، بلدیہ ٹاؤن، ٹاور، کلفٹن میں فرانسیسی قونصل خانے کے باہر، فریسکو چوک جامع کلاتھ، ناتھا خان پل، فائیو سٹار چورنگی، کورنگی نمبر چار، سہراب گوٹھ، گورنر ہاؤس، فوارہ چوک، پریس کلب، ملیر اور بن قاسم ٹاؤن میں احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے باعث ٹریفک جام ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہوا۔
ٹی ایل پی کی جانب سے فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر تحریک لبیک پاکستان نے 20 اپریل کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی قیادت کی گرفتاری کے باعث جماعت نے لانگ مارچ سے قبل ہی احتجاج شروع کر دیا ہے۔
سعد حسین رضوی کی گرفتاری کا مقصد؟
تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سعد حسین رضوی کو تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، جنہیں ڈپٹی کمشنر آفس (ڈی سی او) لاہور کی جانب سے نظر بندی کے احکامات پر پولیس نے پیر کو حراست میں لیا تھا۔
متعدد بار ملک میں شاہراہیں بلاک کر کے نقل و حرکت مسدود کرنے والی اس تنظیم نے فرانس کے صدر کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کے متنازع بیان پر احتجاج کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے راولپنڈی اور فیض آباد سمیت دیگر شہروں میں ٹی ایل پی کے دھرنوں کو ختم کرنے کے لیے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے مطالبے پر غور کے لیے وقت مانگا تھا۔
کچھ عرصے قبل اس یقین دہانی پر دھرنے تو ختم ہو گئے تھے لیکن مطالبات پورے نہ ہونے پر ٹی ایل پی نے ایک بار پھر 20 اپریل کو احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان کے بعد حکومت پہلے ہی حرکت میں آ گئی تاکہ ملک میں دھرنوں سے نقل وحرکت کے مسائل پیدا نہ ہوں۔
ترجمان ڈپٹی کمشنر لاہور عمران مقبول کے مطابق ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظر بندی کے احکامات 16 ایم پی او نقض امن کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کیے گئے ہیں، جس کے تحت پولیس نے انہیں حراست میں لیا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نظر بندی کے احکامات پر عمل درآمد ہو چکا ہے، یہ فیصلہ بعد میں ہو گا کہ انہیں کتنے دن تک نظر بند رکھا جائے گا۔
اگر ٹی ایل پی کی جانب سے امن و امان کو برقرار رکھنے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، تب ہی ان کی رہائی کا امکان ہو گا یا عدالت سے رجوع کیے جانے پر عدالتی احکامات پر انہیں رہا کیا جا سکے گا۔
ٹی ایل پی کے مطالبات اور احتجاج کی کال
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی رہنما حسن بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والوں کو احساس دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے عقیدے اور مذہبی جذبات پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ پہلے جب دھرنا دیا گیا تھا تو حکومت نے کارکن گرفتار نہیں کیے تھے بلکہ یہ وعدہ کیا تھا کہ ہمارے مطالبے پر فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کئی ماہ گزرنے کے باوجود مطالبات پورے نہیں ہوئے، تاہم تنظیم نے دوبارہ مطالبات تسلیم کروانے کے لیے 20 اپریل کو لانگ مارچ اور احتجاج کا اعلان کیا تو اب حکومت نے اس سے پہلے ہی پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کرلیا ہے۔‘
حسن بٹ کے مطابق: ’پارٹی نے ملک بھر میں کارکنوں کو سڑکیں بلاک کرکے دھرنے دینے اور احتجاج کی کال دے دی ہے۔ جب تک سعد رضوی کو رہا نہیں کیا جاتا، ہمارا احتجاج جاری رہے گا اور ان کی رہائی کے بعد 20 اپریل کے لانگ مارچ سے متعلق بات چیت ہو سکے گی۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی مذہبی تنظیم تحریک لبیک نے 2018 کے بعد ملک بھر کے بیشتر حلقوں سے امیدوار بھی کھڑے کیے تھے، وہ اسمبلیوں میں نشستیں تو حاصل نہ ک رسکے مگر لاکھوں ووٹ حاصل کر کے نمایاں سیاسی حیثیت ضرور اختیار کر لی تھی۔