صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع مشہور تعلیمی درس گاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں گذشتہ سال نومبر میں ایک طالبہ کی جانب سے استاد پر جنسی ہراسانی کے الزام کے مقدمے کا فیصلہ صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی نے سنا دیا ہے۔
صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی دفتر کی جانب سے نو صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس کیس سے متعلق تمام دو طرفہ گواہان اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کی جگہوں میں جنسی ہراسانی سے تحفظ ایکٹ 2010 کی دفعہ چار مادہ دوئم کے تحت اسلامیہ کالج یونیورسٹی پولیٹیکل سائنس کے چیئرمین ڈاکٹر امیراللہ کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک استاد کے خلاف اس قسم کا اقدام ایک مشکل فیصلہ ہے، تاہم انہوں نے لکھا ہے کہ ایک استاد تعلیمی درس گاہ میں محافظ کی مانند ہوتا ہے، لیکن جنسی ہراسانی کے شکار شخص کے لیے ایسا ماحول سازگار نہیں ہے۔
محتسب کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں اسلامیہ کالج کی انتظامیہ پر بھی تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکار طالبہ کے ساتھ ہراسانی کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی گئی، لیکن انتظامیہ نے بجائے تحقیقات کرنے کی یہ مواد الٹا متاثرہ طالبہ کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔
فیصلہ کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس کیس کے مرکزی کردار ڈاکٹر امیراللہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے محتسب کے فیصلے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ وہ پہلے ہی ان تحقیقات کو رد کر چکے ہیں۔
’صوبائی محتسب کو فیصلے کا اختیار کسی نے نہیں دیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی اور گورنر انسپکشن ٹیم کی انکوائری کے بعد صوبائی محتسب کی انکوائری کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔ قانون کے آرٹیکل 13 کے تحت اگر میں ایک کیس میں بری ہو گیا ہوں تو مجھے دوسری انکوائری میں سزا نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے کہا ’صوبائی محتسب اس کیس میں واضح طور پر جانبدار رہی ہیں اور اس حوالے سے میں بہت پہلے شکایت کر چکا ہوں۔‘
ڈاکٹر امیراللہ کے مطابق وہ محتسب کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ یہ فیصلہ تفصیل میں پڑھنے کے بعد اس کو صحیح فورم پر چیلنج کریں گے۔
اس فیصلے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے انتظامیہ اور کمیٹی کے ارکان سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔
پس منظر
متاثرہ طالبہ نے بتایا تھا کہ پچھلے سال نومبر میں ان کے ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر امیراللہ نے انہیں اپنے دفتر طلب کیا۔ ’کچھ دیر غیر رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے دوستی کی پیشکش کی۔‘
صوبائی محتسب کےفیصلے کے صفحہ چار پر طالبہ کی ایک دوست (س) جنہوں نے ایک گواہ کے طور پر اپنا بیان لکھوایا ہے لکھا کہ ’ہم دونوں دوست تھے۔ جس دن ڈاکٹر امیراللہ نے انہیں دفتر بلایا تو میں نے ان سے پوچھا کہ وہ انہیں کیوں بلا رہے ہیں۔ تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ بعد میں ہم دونوں اکٹھے ان کے دفتر گئے۔ وہاں سر نے ہم سے والدین اور گاؤں سے متعلق سوالات پوچھے۔ پھر مجھے جانے کو کہا اور کہا کہ وہ میری دوست سے کچھ ذاتی بات کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ پندرہ منٹ بعد جب میری دوست باہر آئیں تو وہ رو رہی تھیں، اور مجھے بتایا کہ کیا ہوا۔ میں نے انہیں والدین سے بات کرنے کی تجویز دی۔‘
11 نومبر 2020 کو یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے اسلامیہ کالج میں طلبہ و طالبات نے اس طالبہ کے ساتھ ہونے والے جنسی واقعے کے بعد شعور بیدار کرنے کی خاطر احتجاج کیا تھا، جس کو میڈیا میں کافی کوریج بھی ملی تھی۔
احتجاج کی سربراہی کرنے والے طالب علم جابر خان، شیبا خان اور میمونہ زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں خواتین کے ساتھ مسلسل جنسی ہراسانی کے واقعات پیش آ رہے ہیں، تاہم ثبوت اور گواہان ہونے کے باوجود انتظامیہ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔‘
ان طلبہ کے مطابق متاثرہ طالبہ کے والدین کی جانب سے تحریری شکایت درج کرنے کے سات دن گزرنے کے باوجود کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
محتسب کی جانب سے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد طالب علم جابر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ نے احتجاج کے بعد انہیں مختلف حربوں سے کئی ایک مسائل سے دوچار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احتجاج کے اگلے دن ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن (ٹی ایس اے) کی جانب سے جاری ایک تحریری بیان میں اس احتجاج کی مذمت کی گئی، اور اساتذہ کی ساکھ برقرار رکھنے کی خاطر ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
طالب علم جابر خان نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کی ڈیسپلنری کمیٹی نے میرے خلاف ایک بے بنیاد کیس بنایا۔ ایک مقامی ٹی وی چینل پر مجھے یونیورسٹی سے نکالے جانے کاجھوٹا بیان بھی چلایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ مجھے اور باقی دو خواتین کو فائنل ٹرم امتحان میں نہیں بیٹھنے دیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امتحانی ہال میں بیٹھنے کے لیے طالبہ شیبا سے معافی نامہ لکھوایا گیا جس میں انہوں نے اپنے ہی خلاف اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کا اعتراف کیا۔ جس کو بعد میں شیبا نے جھٹلاتے ہوئے کہا کہ ہال میں بیٹھنے کے لیے ان کے سامنے یہ شرط رکھی گئی تھی۔‘
جابر کے مطابق، یونیورسٹی میں پرائیویٹ ایگزامینیشن کنٹرولر فضل دیان کے ذریعے انہیں، میمونہ اور شیبا کو دوران امتحان تنگ کر کے ذہنی اذیت پہنچائی گئی۔
’میں نے احتیاط کے طور پر امتحان میں بیٹھنے کے لیے صوبائی محتسب اور یونیورسٹی سے اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا، لیکن اس کے باوجود مجھے پیپرز کے دوران تنگ کیا جاتا رہا یہاں تک کہ ایک پیپر پر سرخ لکیریں بھی کھینچی گئیں۔‘
جابر کے مطابق، متاثرہ طالبہ کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی اور گورنر انسپکشن ٹیم سے وہ اور ان کے ساتھی مطمئن نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صوبائی محتسب کو اس معاملے سے آگاہ کرتے ہوئے دوسری کمیٹی بنانے کی درخواست کی۔
صوبائی محتسب کے استفسار پر کمیٹی ارکان نے اس کیس کو ہائی پروفائل قرار دیتے ہوئے محتسب کو اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کی، جس پر محتسب نے انہیں انکوائری کی تفصیلات ارسال کرنے اور باقی تفتیش روکنے کی ہدایات جاری کر دیں۔
تاہم کمیٹی نے انکوائری کی تفصیلات بھیجنے کی بجائے فیصلہ ارسال کرتے ہوئے لکھا کہ’طالبہ نے غیر سنجیدہ اور جھوٹے الزامات عائد کیے تھے جس کو ثابت کرنے میں وہ بری طرح ناکام ہو چکی ہیں، لہذا ان کی کمیٹی متعلقہ پروفیسر کو بری قرار دیتی ہے۔
گورنر انسپکشن ٹیم (جی آئی ٹی) کا کیا بنا؟
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے اس کیس کے حوالے سے گورنر شاہ فرمان نے بھی انکوائری کے احکامات جاری کیے تھے۔ تاہم گورنر انسپکشن ٹیم (جی آئی ٹی ) کی تحقیقات چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو سکیں اور ابھی تک ان کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔
شکایت کنندہ طلبہ و طالبات نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں جی آئی ٹی کی رپورٹ سے صوبائی محتسب کا فیصلہ آنے تک مطلع نہیں کیا گیا۔ ’البتہ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے ایک جانبدارانہ اور یکطرفہ رپورٹ لکھ کر جی آئی ٹی کا حوالہ دیا تھا۔‘
قانونی ماہرین کے مطابق صوبائی محتسب کا فیصلہ ہائی کورٹ کے فیصلے جتنا اہمیت رکھتا ہے۔ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے گورنر کو اپیل کی جاتی ہے۔