نظام نہیں، چہرے بدلو!

ایک اور ’ترین‘ اب کپتان کے قریب ترین ہونے جا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ بچے کھچے دو سال ’دوست‘ ترین کی حیثیت سے پورے کر جائیں اور ’دشمن‘ ترین بنائے جانے کی نوبت نہ آئے۔

شوکت ترین وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اکتوبر 2018 میں ایک ملاقات کے دوران (عمران خان فیس بک)

سن 1978 کا بڑا مشہور گیت تھا جس کے بول تھے 'آئینہ وہی رہتا ہے چہرے بدل جاتے ہیں۔‘ لتا منگیشکر کی مدھر آواز میں فلم ’شالیمار‘ کے اس سدا بہار گیت میں ہیروئن زینت امان اپنے دل پھینک، بے وفا، ہرجائی ہیرو دھرمیندر کا شکوہ کر رہی ہوتی ہے۔

شکروار کے دن کپتان نے اپنی 22 سالہ جدوجہد کے آخری تین سالوں میں بننے والی ہنگامی ٹیم میں کوئی چھٹی یا ساتویں بار مزید ہنگامی تبدیلی کی (بلکہ تبدیلی کیا اب تو اسے ادل بدل یا وٹہ سٹہ کہنا چاہیے) تو بس یوں ہی شالیمار فلم کا یہ گیت یاد آ گیا۔

چشمِ تصور بھٹکا کر لے گئی کہ ہیروئن کی جگہ آنسو بہاتی دہائیاں دیتی وعدے یاد دلاتی مظلوم پاکستانی عوام ہے اور بے وفا ہیرو کی جگہ ہر دلعزیز کپتان کی بے رخی حکومت ہے جس کی حکومتی امور کے ساتھ دل لگی کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

کئی بار کے وزارتی وٹے سٹے نے تو اب حکومت کو دھندلایا آئینہ ہی بنا ڈالا ہے جس میں محض چہرے ہی بدلے جا رہے ہیں۔

چہروں کے بدلنے سے یاد آیا، ہمارے ہر دلعزیز کپتان کے ایک سیاسی کزن ہوا کرتے تھے قبلہ محترم قادری صاحب، جو بڑے زور و شور اور خشوع و خضوع سے کسی زمانے میں ایک نعرہ لے کر نکلے تھے کہ 'چہرے نہیں نظام بدلو۔'

اسی زمانہ ماضی قریب میں ہر دلعزیز کپتان بھی قبلہ محترم کے ہم نوا و ہم سخن غمگسار و وفادار ہوا کرتے تھے اور آپ جناب کا سیاسی سلوگن بھی چنداں مختلف نہ تھا۔

آپ بھی نظام کی ’تبدیلی‘ ہی کا علم اٹھائے نکلے تھے۔

بات چل نکلی ہی ہے تو ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ بھی واضح ہو جائے کہ 'چہرے نہیں نظام بدلو' کا نعرہ اول اول 1970 کی تحریکِ استقلال کا ٹریڈ مارک تھا جسے چار دہائیوں بعد قبلہ محترم قادری صاحب نے بعینہ جبکہ ہر دلعزیز کپتان صاحب نے ’تبدیلی‘ کے عنوان سے تبدیل کر کے گود لے لیا۔

یہ الگ بات اور بحث کہ بعد ازاں تحریکِ استقلال خود بھی تحریکِ انصاف میں ضم ہو گئی۔

بہرحال بات ہو رہی تھی آئینے، چہرے اور نظام کی۔ کپتان عمران خان کے حالیہ کابینہ جاتی وزارتی وٹے سٹے نے تحریکِ انصاف کے کارکن کو بھی متاثر نہیں کیا۔

نتیجہ یہی دیکھنے میں آیا کہ انہیں مایوس کیا ہے یا پھر زیادہ وزیروں کا ادل بدل یا وٹہ سٹہ ہوا صرف وہی ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے پائے گئے جبکہ تحریک کا کارکن سوال کرتا پایا گیا کہ پیپلز پارٹی سے ادھار آخر کب تک۔ ۔ ۔ ۔ اور آخر کب تک اس ادھار کا دفاع بھی کرنا ہے۔

پہلے پیپلز پارٹی کے حفیظ شیخ کو آزمایا اور اب اسی جماعت کے ایک اور سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا دفاع تحریکِ انصاف کے پرانے کارکن کے لیے بڑا کٹھن کام ہے۔

ایک اور ’ترین‘ اب کپتان کے قریب ترین ہونے جا رہے ہیں، خدا کرے کہ یہ بچے کھچے دو سال ’دوست‘ ترین کی حیثیت سے پورے کر جائیں اور ’دشمن‘ ترین بنائے جانے کی نوبت نہ آئے۔

خدا کرے کہ ان کی کہانی کا انجام اپنے پیشروئوں سے مختلف ٹھہرے۔ شوکت ترین صاحب یوں تو بھلے مانس انسان ہیں لیکن تین سالوں میں چوتھے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے انہیں چیلنجز انتہائی گھمبیر درپیش ہیں۔

سب سے بڑا چیلنج تو انہیں قبولیت اور تاثر کا درپیش ہے۔ ان کے پیشرو کی ناکامی میں یہی دو بڑے عنصر کارفرما رہے تھے۔

نہ صرف تحریکِ انصاف کا کارکن بلکہ حکومتی و جماعتی ذمہ دار بھی انہیں پی ٹی آئی کا چہرہ اور پراڈکٹ تصور اور تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ایسے میں شوکت ترین کیسے مختلف ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔

دوسرا، شوکت ترین ایک ایسے مرحلے میں وزیرِ خزانہ بننے جا رہے ہیں جب حکومت اپنی مدت کا بڑا عرصہ مکمل کر چکی ہے اور محض دو سال باقی ہیں۔

یہ آخری عرصہ کسی بھی حکومت کے لیے تجربے کرنے کا یا اصلاحات کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ پالیسی کے استحکام کے ساتھ ڈیلیور کرنے کا وقت قرار پاتا ہے۔

ان آخری دو سالوں میں بھی گویا یوں سمجھیے کہ بس ایک سال ہی شوکت ترین کے حصے میں ڈیلیور کرنے اور کایا پلٹنے کا میسر آئے گا کیونکہ حکومتی مدت کا آخری سال درحقیقت الیکشن مہم کا سال ہوتا ہے۔

کیا محض ایک سال کی قلیل مدت میں شوکت ترین مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عفریت کا مقابلہ کر پائیں گے؟

کیا محض ایک سال میں شوکت ترین والے وہ جادوگر ثابت ہو پائیں گے جو (midas touch) خاک میں ملتی تحریک انصاف کی حکومتی ساکھ کو ایک بار پھر سونے جیسا چمکتا دمکتا کر کے دکھا دیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فی الوقت سب سے بڑا اور اولین چیلنج تو نئے وزیرِ خزانہ کو سالانہ بجٹ کا درپیش ہے۔

آئی ایم ایف کے کڑے پلان کے سائے میں بجٹ بنانا شوکت ترین کے لیے آسان ہرگز نہ ہو گا لیکن آئندہ بجٹ ان کے وژن، سوچ اور طریقہ کار کا عکاس بھی ہو گا۔

قیامت خیز مہنگائی میں عوام کو ریلیف اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے مابین بیلنس برقرار رکھنے والا بجٹ بنانا موت کے کنویں میں تنی ہوئی ایسی رسی پر سائیکل چلانے کے مترادف ہو گا جو رسی بھی جگہ جگہ سے ٹوٹنے کے برابر ہو اور سائیکل کی چین بھی زنگ آلود ہو چکی ہو۔

معیشت کا پہیہ چلانے کے ساتھ ساتھ حکومت کا معاشی امیج بہتر کرنا اور عوام کو فوری ریلیف پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا مقابلہ کرنا بھی نئے وزیرِ خزانہ کے لیے آسان ہدف نہ ہو گا۔

کسی معجزے کے تحت اگر اپوزیشن  اتحاد پی ڈی ایم دوبار متحد ہو جاتی ہے تو شوکت ترین صاحب کے لیے مشکلات میں اضافہ بھی متوقع ہے۔

ایک اور مسئلہ منتخب ہونے کا بھی ہے۔ فی الحال تو حکومت کا اندرونی پلان شوکت ترین کو سینیٹر بنانے کا ہے جس کے لیے غالباً خیبر پختونخوا سے کوئی محفوظ اور یقینی نشست خالی کروائی جائے گی۔

بہرحال مسائل گھمبیر ہیں اور حل صرف ایک کہ عوام کی توقعات پوری کی جائیں۔ بار بار کی محکمہ جاتی وزارتی تبدیلیوں سے عوام کا اصل اور حقیقی تبدیلی اب محض ایک خواب اور مذاق ہی لگنے لگی ہے۔

ہر بار وزیر تبدیل کرتے حکومت نئے وعدے، دعوے، دلاسے اور لالی پاپ دینے لگتی ہے اور عوام کی حالت تو بقول احمد فراز وہ ہو گئی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی

ہم ایسے سادہ لوح تھے کہ ہر بار آ گئے

سادہ دل، سادہ لوح عوام کے پاس فی الحال سوائے تبدیلی کے دعووں، دلاسوں پر اعتبار کرنےکے مزید بچا ہی کیا ہے۔

لیکن ’چہرے نہیں نظام بدلو‘ والی تبدیلی کے ذریعے انقلاب لانے کے حالیہ دعویداروں کو کم از کم اب تو اپنا سلوگن تبدیل کرنا چاہیے کہ یہ صرف اس تبدیلی کے ہی سہولت کار نکلے جن کی جدوجہد 'نظام نہیں، چہرے بدلو' تک آ کر ہی محدود اور ناکام ہو گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ