وزیراعظم عمران خان نے جمعے کو اپنی کابینہ میں رد و بدل کرتے ہوئے شوکت فیاض احمد ترین کو وفاقی وزیر برائے خزانہ اور ریونیو مقرر کردیا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے موجودہ سربراہ حماد اظہر کو توانائی کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق معاشی معاملات (اکنامک افیئرز) کے وزیر مخدوم خسرو بختیار کو وزیر صنعت و پیداوار بنا دیا گیا ہے جبکہ فواد چوہدری کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے ہٹا کر وزیر اطلاعات بنا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ شبلی فراز کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سونپ گئی ہے، جو اس سے قبل وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز تھے۔ اسی طرح عمر ایوب خان سے پاور ڈویژن اور پیٹرولیم کی ذمہ داریاں واپس لے کر اکنامک افیئرز کی وزارت ان کے حوالے کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ محض 16 روز قبل سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سے وزارت کا قلمدان واپس لے کر حماد اظہر کو وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔
حماد اظہر کی تعیناتی کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ شوکت ترین کے چند روز میں وزیر خزانہ بننے کا امکان ہے اور اس کی تصدیق خود شوکت ترین نے بھی کی تھی۔
ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں گفتگو کے دوران شوکت ترین نے کہا تھا کہ انہیں وزارت خزانہ کی سربراہی کی پیشکش ہوئی ہے، تاہم وہ کچھ روز میں اس سلسلے میں فیصلہ کریں گے۔
حماد اظہر سے قبل عبدالحفیظ شیخ وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے، جنہیں بظاہر سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کے بعد وفاقی کابینہ سے ہٹایا گیا تھا۔
شوکت ترین کون ہیں؟
ملتان میں ایک فوجی ڈاکٹر کے ہاں 1953 میں پیدا ہونے والے شوکت ترین اس سے قبل بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
نسلی لحاظ سے پشتونوں کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے معروف بینکر شوکت ترین 2010-2009 کے دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے جبکہ 2008 میں اسی حکومت کے مشیر کے طور پر مقرر ہوئے اور جولائی 2009 میں سندھ سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وزیر خزانہ بنائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انہوں نے فروری 2010 میں وزارت سے اس لیے استعفیٰ دیا کہ وہ اپنے ملکیتی سلک بینک کا کاروبار بڑھانا چاہتے تھے۔
ابتدائی تعلیم پاکستان کے آرمی کنٹونمنٹ سکولوں سے حاصل کرنے والے شوکت ترین نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ 1975 میں انہوں نے سٹی بینک میں شمولیت اختیار کی، جس کے ساتھ وہ تقریباً دو عشروں تک منسلک رہے اور پاکستان اور بیرون ملک کنٹری منیجر جیسے اہم عہدوں پر کام کیا۔ وہ دو مرتبہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے چیئرمین بھی رہے۔
پاکستان کے نئے وزیر خزانہ نے 1997 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کہنے پر بیرون ملک ملازمت چھوڑ کر پاکستان کے حبیب بینک میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بعدازاں انہوں نے 2000 میں حبیب بنک چھوڑ کر یونین بینک کی صدارت قبول کی۔ وہ سعودی پاک کمرشل بینک کے ایک اہم سٹیک ہولڈر بھی رہ چکے ہیں، جہاں انہوں نے سعودی عرب سے ایس پی سی بی میں 86.55 فیصد حصص حاصل کرنے کے لیے ایک کنسورشیم تشکیل دیا، جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جون 2009 میں سلک بینک بنا، جس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شوکت ترین کچھ عرصہ پہلے تک بھی شامل تھے۔