بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے جمعہ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ہی ایک خاتون افسر کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے پر نہ صرف برطرف بلکہ گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ افسر نے بدھ کو جنوبی فریسل گاؤں میں سرکاری فورسز کے محاصرے اور تلاشی مہم میں مبینہ طور پر ’خلل ڈالنے کے ارادے سے‘ انٹرنیٹ پر لائیو سٹریم کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں خاتون کو چھاپہ مار فوجیوں پر چیختے ہوئے دیکھا گیا: ’یہ ہمارا کشمیر ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ افسر نے ’تلاشی پارٹی سے مزاحمت کی‘، پرتشدد ہو گئیں اور ’دہشت گردوں کے پرتشدد اقدامات کی تعریف کرنے لگیں‘۔ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افسر کو گرفتار کر کے برطرف کر دیا گیا۔ ان پر بھارت کے انسداد دہشت گردی کے اہم قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
برطرف اہلکار ایک خصوصی پولیس افسر تھیں۔ اس طرح کے اہلکار نچلے درجے کی پولیس افسر ہوتے ہیں جنہیں بنیادی طور پر بغاوت کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔
پولیس کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس پولیس افسر کے عسکریت پسندوں سے رابطے تھے۔
بھارتی قانون نافذ کرنے والے افسران کو اکثر ان کشمیری باغیوں کی مدد کرنے میں ملوث ہونے کے الزام کا سامنا رہا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے اپنے ہمالیہ کے خطے کی آزادی یا ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلح مہم چلائی ہے۔
بھارت اور پاکستان دونوں کشمیر کے تمام منقسم اور مسلم اکثریتی علاقے پر دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ تنازعہ 1940 کی دہائی کے اواخر میں دونوں ممالک کے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیری پولیس بیچ میں پھنس جاتی ہے جسے اکثر ان کے اپنے پڑوسی غدار سمجھتے ہیں اور اعلیٰ بھارتی افسران انہیں مشکوک انداز میں دیکھتے ہیں۔
کئی موقعوں پر حکام پر عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا۔ 1992 میں سری نگر کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر مبینہ طور پر باغیوں کی بمباری میں مدد کرنے کے الزام میں دو پولیس اہلکاروں اور ایک نیم فوجی کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں ایک افسر ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارتی حکومت کو بھیجا گیا مراسلہ عام کیا ہے جس میں وہ 2019 میں نئی دہلی کی جانب سے خطے کی نیم خود مختار حیثیت چھیننے اور نئے قوانین کے ذریعے متعدد انتظامی تبدیلیاں نافذ کرنے کے بعد کشمیر میں لوگوں کے حقوق پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کے پانچ ماہرین نے فروری میں بھیجے گئے ایک مکتوب میں اور 60 دن کی لازمی پابندی کے بعد عوامی سطح پر ’شدید تشویش کا اظہار کیا کہ سیاسی خود مختاری کے ضیاع‘ اور نئی قانون سازی کے نفاذ سے خطے کی آبادیاتی تشکیل تبدیل ہوسکتی ہے۔