معروف امریکی فلم سٹار رابرٹ ڈی نیرو کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ طلاق کے بعد سے ان کے موکل مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً کام کی ہر پیشکش کو قبول کر رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں تجربہ کار اداکار نے 2020 کی فیملی فلم ’دی وار ود گرینڈپا‘ سمیت متعدد اوسط درجے کی فلموں میں کام کیا۔
عدالت میں پیش ہوتے ہوئے ڈی نیرو کی وکیل کیرولین سٹراس نے دعویٰ کیا کہ اداکار کو 2018 میں علیحدگی کے بعد سے اپنی سابق بیوی گریس ہائی ٹاور کا معیار زندگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کے لیے ’تیز رفتاری‘ سے کام کرنا پڑ رہا ہے۔
سٹراس نے طلاق کے جاری مقدمے کی ورچوئل سماعت کے دوران کہا کہ مسٹر ڈی نیرو کی عمر 77 سال ہے۔ ’اگرچہ وہ اپنے فن سے محبت کرتے ہیں، لیکن انہیں اس تیز رفتار سے کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ سلسلہ کب رکے گا؟ انہیں ہفتے کے چھ دنوں میں 12، 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ سٹیلا میکارٹنی کے لیے مس ہائی ٹاور کی پیاس کو پوار کر سکیں؟ وہ کل بیمار ہو سکتے ہیں اور پارٹی ختم ہوجائے گی۔‘
1997 میں شادی سے قبل ایک معاہدے کے تحت ڈی نیرو کو سابق بیوی کو سالانہ ایک ملین ڈالرز ادا کرنا ہوں گے۔
تاہم یہ جوڑا تین سال سے اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ جب تک معاہدے کی شرائط نافذ نہیں ہو جاتی انہیں ہائی ٹاور کو کتنی ادائیگی کرنی چاہیے۔
ڈی نیرو کے اثاثوں کی مالیت 500 ملین ڈالرز (£358 ملین) بتائی جاتی ہے۔ اداکار کے وکلا نے کہا ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں مالی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
جولائی 2020 میں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈی نیرو کو کاروباری شراکت داروں سے قرض لینے پر مجبور کیا گیا تھا تاکہ سرمایہ کاروں کو پانچ لاکھ ڈالرز ادا کیے جا سکیں کیونکہ ’ان کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔‘
© The Independent