پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین ان دنوں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ عدالتوں اور ایف آئی اے میں پیشیوں کے موقع پر پی ٹی آئی کے کئی اراکین اسمبلی بھی ان سے اظہار یکجہتی کے لیے آتے ہیں۔
جہانگیر ترین کا دعوی ہے کہ ان کے ساتھ 35سے 40اراکین اسمبلی ہیں اور وہ سب وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے جس میں وہ جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں پر بات کریں گے۔
جہانگیرترین کی دعوتوں میں شریک اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی ان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو انہیں فکر نہیں کرنی چاہیے۔
جہانگیرترین کے ساتھ کتنے اراکین اسمبلی ہیں؟
برسر اقتدار پی ٹی آئی کے کئی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ پریشر گروپ کے طور پر جڑے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے دعوے کے مطابق کتنے اراکین کی حمایت حاصل ہے یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ انہوں نے ابھی تک پارٹی پالیسی کے خلاف نہ کوئی اقدام اٹھایا اور نہ ہی پارٹی نے ان کے خلاف کوئی پالیسی بیان دیاہے۔
تاہم جہانگیر ترین نے رواں ہفتہ عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ ان کے ساتھ 35سے 40اراکین صوبائی و قومی اسمبلی ہیں جو ان کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کوغیر قانونی سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اراکین وزیر اعظم سے ملاقات کر کے انہیں تحفظات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ہمارے گروپ کے ساتھ ملاقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا ہمیں میڈیا سے پتہ چلا لیکن ہم سے نہ کسی نے رابطہ کیا اور نہ ہی ہم کوئی کمیٹی تسلیم کرتے ہیں۔ ہم وزیر اعظم سے ملاقات میں براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔
جو اراکین اسمبلی جہانگیر ترین کےساتھ پیشیوں اور کھانوں کی دعوت اور ملاقاتوں میں ظاہر ہوئے ان کی کل تعداد 34ہے۔
اطلاعات کے مطابق کچھ دن پہلے جہانگیر ترین کے عشائیے میں شامل اراکین قومی اسمبلی راجہ ریاض، خواجہ شیراز، ریاض مزاری، سمیع گیلانی، جاوید وڑائچ، مبین عالم، غلام لالی اور غلام بی بی بھروانہ تھے۔ اس دعوت میں اراکین پنجاب اسمبلی اجمل چیمہ، نعمان لغاری، امیر محمد خان، فیصل جبوانہ، عبدالحئی دستی اور رفاقت علی خان بھی شریک تھے۔
ان کے علاوہ عون چوہدری، نذیر چوہان، سجاد وڑائچ، امین چوہدری، خرم لغاری، مہر اسلم بھروانہ، آفتاب ڈھلوں، عمر آفتاب ڈھلوں، آصف مجید، طاہر رندھاوا، بلال وڑائچ، زوار وڑائچ، نذیر بلوچ، امین چوہدری، افتخار گوندل، ثمن نعیم اور غلام رسول بھی شامل تھے۔
جب کہ کل جمعے کو جہانگیر ترین سے اسلام آباد ان کی رہائش گاہ پر جھنگ سے تحریک انصاف کے ایم این اے صاحبزاده محبوب سلطان، صاحبزادہ امیر سلطان اور ایم پی اے عمر تنویر بٹ نے بھی ملاقات کی جس میں موجودہ سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے رکن، پنجاب کے پارلیمانی سیکرٹری نذیر چوہان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چالیس ایم پی ایز اور دس ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے اور ہم نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگاتھا، ہمیں پیر یا منگل کو ملاقات کا گرین سگنل ملا ہے لیکن وقت طے نہیں ہوا جو جلد ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے اور ان کے بیٹے کےخلاف ایف آئی اے کی جانب سے درج تین مقدمات غیر قانونی ہیں۔ بعض عناصر پارٹی میں سازش کے ذریعے پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیر اعظم سے ملاقات میں انہیں بے نقاب کریں گے اور حکومتی کارکردگی سے متعلق تحفظات سے بھی آگاہ کریں گے ہمیں امید ہے وزیر اعظم ہماری درخواست پر عمل درآمد کرتے ہوئے بے چینی اور مسائل حل کریں گے۔
نذیر چوہان نے کہاکہ وزیر اعظم سے ملاقات میں جہانگیر ترین کی قیادت میں تمام اراکین جائیں گے اور ہر ایک پارٹی قیادت کے سامنے خود پیش ہوگا۔
کیا ترین گروپ کے تحفظات دور ہوسکیں گے؟
اس سوال کے جواب میں پنجاب کے صوبائی وزیر سید یاور عباس بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جہانگیر ترین کے خلاف جو بھی مقدمات درج ہوئے، اگر وہ بے گناہ ہیں یا ان کا ریکارڈ درست ہے انہوں نے کچھ نہیں کیا الزامات غلط ہیں تو انہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہماری پارٹی کا نعرہ احتساب ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں پر الزامات کا دفاع کر سکیں اگر وہ بے گناہ ہیں تو عدالت سے انصاف ضرور ملے گا۔
یاور بخاری نے کہاکہ جہاں تک ترین گروپ کی وزیر اعظم سے ملاقات کی بات ہے تو وہ ہر ایک کا حق ہے اگر وزیر اعظم انہیں ملاقات کا وقت دیتے ہیں تو انہیں جاکر اپنی بات کرنی چاہیے کیونکہ وہ ہمارے پارٹی سربراہ ہیں، کسی کو کوئی بھی شکایت ہوتی ہے تو وہ مل کر بتاسکتاہے۔
انہوں نے کہاکہ کسی کو بھی پارٹی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے بلکہ ان عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے جن پر انہیں اعتراض ہے یا ان سے شکایت ہے۔
واضح رہے کہ جب سے جہانگیرترین ایف آئی کی جانب سے منی لانڈرنگ ودیگر الزامات پر درج تین مقدمات کی پیروی کے لیےعدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا اپوزیشن بھی تنقید کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما راناثنااللہ بھی بیان دے چکے ہیں کہ جہانگیر ترین کی ایک جیب میں پنجاب کی صوبائی جبکہ دوسری جیب میں وفاقی حکومت ہے۔
سیاسی حلقوں میں بھی عددی لحاظ سے وفاق اور پنجاب میں حکومت کو واضح برتری نہ ہونے پر ترین گروپ کو اہمیت کا حامل سمجھا جارہاہے۔