دو ماہ سے زائد ہو گئے کہ حکومت نے خود ہی کرونا سے پھیلنے والی ممکنہ تباہی کے بارے میں بیانات جاری کرنا شروع کیے۔ بتایا گیا کہ کیسے پاکستان میں حالات پچھلے سال کی طرح نسبتا خطرناک رخ اختیار کر رہے ہیں۔
چند ایک اجلاس بھی منعقد کیے گئے اور ایک ہومیو پیتھک قسم کی بندشی پالیسی بھی اپنائی گئی۔ مگر پہلے کی طرح اس پالیسی کا سارا نزلہ تعلیمی اداروں پر گرا۔
کاروباری طبقے نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے نظام جوں کا توں چلوانے کا انتظام کر لیا۔
مارکیٹوں پر لگائی وقت کی حد بندی رمضان کی آمد کے پیش نظر مکمل طور پر غیر موثر رہی۔ نہ انتظامیہ کو حکومت کی بنائی پالیسی کو لاگو کرنے کا خیال آیا اور نہ ہی کسی نے اس کے اثرات و نتائج پر عرق ریزی کی۔
منڈی اور مارکیٹ دونوں کھلی رہیں۔ ٹرینیں، جہاز بسیں چلتی رہیں۔ شادی سروس، پارک، ڈھابے سب آباد رہے۔ بند ہوئے تو تعلیمی ادارے۔
لیکن وہاں بھی عجیب و غریب اور عقل کو دنگ کرنے والی پالیسی اپنائی گئی۔ کبھی یہ ادارے آدھے کھول دیے جاتے۔ کبھی ایک درجے کے امتحانات موخر اور دوسرے کے لاگو کر دیے جاتے۔
کچھ سکول کرونا پابندیوں کی خلاف ورزی پر بند ہوئے۔ کچھ بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود چلنے دیے گئے۔
ہمارے افلاطونوں نے قوم کو یہ بتایا کہ اگر وہ حکومت کی بنائی ہوئی پالیسی میں چھوڑے ہوئے درجنوں چور دروازوں اور کھڑکیوں سے مستفید ہونے کا پلان بنا سکتے ہیں تو بنا لیں، حکومت کچھ نہیں کرے گی۔
دوسرے الفاظ میں کرونا (کورونا) کو وہی اہمیت دیں جو ٹریفک پولیس کے اس سپاہی کو دی جاتی ہے جو رش کے باعث سرخ بتی توڑنے والے موٹر سائیکل سوار کو پکڑنے سے قاصر رہتا ہے اور موٹر سائیکل والا یہ بھانپتے ہوئے اپنی جان سے کھیلتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا نکل جاتا ہے۔ ایسی پالیسی جو اپنی ناکامی کے بیج خود سے بو رہی ہو، ایک بڑے بحران کے علاوہ کیا جنم دے گی۔
اب یہ بحران ہمارے سر پر تودوں کی طرح گرنے کو تیار ہے۔ ہم میں سے بہت سے اب بھی یہ شکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حالات بھارت جیسے نہیں ہیں جہاں پر روزانہ ساڑھے تین لاکھ انفیکشنز اور اڑھائی، پونے تین ہزار اموات نے دنیا کا سب سے بڑا تباہی صحت کا منظر بنا دیا ہے۔
لیکن ہمیں بھارت سے موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اپنے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ادھر ادھر دیکھ کر ہم تسلی حاصل نہیں کر سکتے۔
روزانہ اموات کی شرح چھلانگیں لگاتی اوپر جا رہی ہے۔ انفیکشنز کا بھی یہی حال ہے۔ وہ تمام کام جو ہمیں کرنے تھے ان کو سرانجام نہ دینے کی پاداش ساری قوم کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔
سب کو نہ گھبرانے کا درس دینے والی حکومت نے اب گھبرا کر فوج طلب کر لی ہے۔ مختلف شہروں میں مارکیٹوں کو فوجیوں کے ذریعے بند کروا کر یہ دعوی کر رہی ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔ فوجی دشمن سے لڑتا ہے وائرس سے نہیں۔
دکانیں بند کروانا قومی ایمرجنسی نہیں ہے۔ اس کے لیے پولیس اور انتظامیہ موجود ہے جو اس سے پہلے انہی شہروں اور انہی کاروباری مراکز میں بغیر خاکی وردی کی معاونت کے شٹرز کو بروقت تالے لگوا چکی ہے۔
کسی کو بڑی بندوق کی گولی سے ڈرا کر سرکاری اعلانات کی پابندی کروانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مگر چونکہ اب حالات مزید پیچیدہ ہونے کا امکان موجود ہے لہذا یہ اشارہ دینے کے لیے کہ حکومت کارآمد سوچ رکھتی ہے، خواہ مخواہ کی پھرتیاں دکھائی جا رہی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ وہ تمام مہینے اور ہفتے جب ہر کوئی ایک دوسرے کی دستار بندی کر رہا تھا کہ کس ذہانت کے ساتھ پاکستان نے کرونا کو غچہ دے دیا موجودہ حالات سے نپٹنے کی تیاری میں صرف ہونے چاہیے تھے۔
جب یہ کہا جا رہا تھا کہ دنیا کو پاکستان سے سیکھنا چاہیے تب اپنے شہریوں کی جان و صحت کے تحفظ کا انتظام کرنے کی ضرورت تھی۔
وہ وقت بے مغز اور بے ربط فلسفے بھگارتے ہوئے گزار دیا اور اب گزرے ہوئے سانپ کی لکیر پر فوج کو تعینات کر دیا ہے۔
ہم اگر پچھلے چند ماہ میں بتدریج نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں کرونا سے متعلق سہولیات پر مسلسل کام کرتے تو آج کرونا والے بیڈز کی کمی کا رونا نہ رو رہے ہوتے۔
مسئلہ پھر بھی یقینا کھڑا ہوتا لیکن یوں ٹھنڈے پسینے نہ آ رہے ہوتے۔ آکسیجن کی کمی پر اب ٹویٹ کرنے والے تین ماہ پہلے سے نجی ہسپتالوں اور ماہرین کی اس معاونت سے متعلق رائے کو اہمیت دیتے تو اس وقت تک تیس چالیس فیصد آکسیجن سپلائی میں اضافہ کر چکے ہوتے۔
کاروباری اور تاجر طبقے سے عمل پہلے سے طے کیا ہوتا تو آج سرحدی محافظ کرسیاں اور میز ہٹوانے پر مامور نہ ہوتے، اور پھر سب سے بڑی بات اگر پچھلے سال سے کرونا ویکسین کے لیے رقم مختص کر کے بین الاقوامی ذرائع سے حصول کے آرڈر دیے ہوتے تو ابھی تک وائرس کے خلاف اجتماعی مدافعت اس جنگ میں کارآمد ثابت ہو رہی ہوتی۔
اب دنیا اپنے عوام کو دھڑا دھڑ ویکسین لگا رہی ہے اور ہم فوج لگا رہے ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت رہا ہے کہ اموات اور انفیکشنز کی شرح گذشتہ ایک سال سے اب تک نچلی سطح پر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں اس خوش قسمتی کو استعمال کرتے ہوئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی تھی، ہم موجودہ بحرانی کیفیت سے بچ سکتے تھے۔
ہم ان خطرات کی گھنٹیاں نہ بجا رہے ہوتے جن کا سامنا بھارت کو ہے، اگر ہم نے دھیلے کا بھی کام کیا ہوتا۔ مگر خود تعریفی، خوش فہمی اور کم علمی اس نظام میں اس حد تک سرایت کر گئی ہے کہ نفع نقصان سے متعلق کوئی معقول بحث کہیں ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔
قیمتی وقت کو ضائع کرنے میں شہرت کمانے والے دور اندیشی کیوں کر دکھائیں گے؟ اس خوف ناک وبا کے پھیلاؤ میں فوجیوں کے سڑکوں پر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس پالیسی کے اجرا کے بعد دو دنوں میں اسلام آباد کے علاوہ ملک کے ہر کونے سے خلاف ورزیوں کی سینکڑوں رپورٹیں ہیں۔
سات لاکھ کی فوج 340509مربع میل اور دنیا کے پانچویں بڑی آبادی والے ملک میں کتنے کاروبار بند کروائے گی؟ سرحدیں بچائے گی یا وائرس سے لڑے گی؟
یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں اور وہ بھی بروقت۔ اب ہم یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ حدت کی شدت میں اتنا اضافہ ہو کہ یہ وبا اپنی موت خود ہی مر جائے۔
جبھی تو سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق چیمپئن بھی اب دعاؤں سے قوم کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔
نوٹ: اس تحریر میں شامل رائے مصنف کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔