حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بنے ہوئے آج (اتوار کو) پورے 25 سال ہو گئے۔
پی ٹی آئی کی بنیاد پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ 25 اپریل، 1996 کو رکھی تھی۔
اس پارٹی کے پہلے چیئرمین عمران خان خود بنے اور آج تک وہی اس پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔
اس سیاسی جماعت نے اپنے سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ جہاں اس میں کئی بڑے نام شامل ہوئے تو بہت سے ابتدائی دنوں کے ساتھی اسے چھوڑ بھی گئے۔
پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک اکبر ایس بابر بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس پارٹی کے امور سے علیحدگی اختیار کر لی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس اہم دن کے حوالے سے اکبر ایس بابر سے گفتگو کی اور پارٹی کے ابتدائی دنوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
اکبر ایس بابر کے مطابق عمران خان کے ایک عزیز نے ان سے 1996میں ملاقات کرائی، ’پھر وہ میری رہائش گاہ پر آئے اور پی ٹی آئی کی بنیاد رکھنے سے متعلق مشاورت ہوئی۔ ہم نے مل کر اس سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔‘
انہوں نے بتایا پی ٹی آئی کے وجود میں آنے کے بعد 13دسمبر، 1996کو کوئٹہ کے فٹبال سٹیڈیم میں پہلا جلسہ کیاگیا جس میں پہلی بار ’نئے پاکستان‘ کا نعرہ لگا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب 2002 کے انتخابات ہوئے تو ہم نے 17 امیدوار کھڑے کیے لیکن کامیابی کی امید صرف میانوالی میں عمران خان کی واحد نشست سے تھی، جہاں حفیظ اللہ نیازی نے دن رات محنت کی تھی۔
’پولنگ کے بعد جب نتائج آنا شروع ہوئے تو اس حلقے کے نتائج روک لیے گئے لیکن ہمارے میڈیا پر شور مچانے کے بعد عمران خان کامیاب ہو گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کی پہلی سیکریٹری اطلاعات صحافی نسیم زہرہ تھیں لیکن کچھ عرصے بعد وہ چھوڑ گئیں جس کے بعد وہ خود 2011 تک میڈیا کو ڈیل کرتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکبر ایس بابر نے بتایا کہ جب مشرف نے ریفرنڈم کرایا تو انہوں نے حامد خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اس کی حمایت نہ کرنے کی رائے دی لیکن عمران خان نہ مانے۔
’یہ پارٹی موجودہ نظام کو تبدیل کر کے حقیقی معنوں میں عوامی مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ سٹیٹس کو ختم کر کے عوامی نمائندگی اور خاص طور پر نوجوانوں کو ایوانوں میں لایا جائے۔
’لیکن بدقسمتی سے بعد میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا اب بھی یہی جھگڑا ہے کہ اس پارٹی کو ویسا ہی بنایا جائے جس مقصد کے لیے یہ قائم ہوئی تھی۔ میں اسی کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔‘