13 سالہ مرجان اب سکول نہیں جاتی۔ مرجان کا تعلق بلوچستان کے شہر جھاؤ سے ہے اور یہ شہر ڈسٹرکٹ آواران میں واقع ہے، وہی آواران جسے پسماندگی اور شورش زدہ علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس شہر میں تقریباً 80 فیصد سکول بند ہیں، مرجان کا پرائمری سکول شندی میں ہے اور ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ پرائمری کے بعد اپنے علاقے سے دور نہ جا پانے کے سبب اپنے تعلیمی سفر کو منقطع کرنے پر مجبور ہے۔
مرجان کے والد نورمحمد اگرچہ مزدور اور خود غیرتعلیم یافتہ ہیں لیکن تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
نورمحمد کہتے ہیں: ’اس کے باوجود کہ ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈر آج صوبائی اسمبلی کے سپیکر (عبدالقدوس بزنجو) ہونے کے ساتھ ساتھ قائم مقام وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، آج جب میں اپنی بچی کو پڑھانا چاہتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ سرکاری اعتبار سے یہاں کسی قسم کا کوئی انتظام نہیں اور میری بیٹی مجبور ہے کہ اپنی تعلیم آگے جاری نہ رکھ سکے تو پھر مجھے اس دن کی حیرت نہیں ہوتی کہ جب انتخابات میں عوام ووٹ دینے نہیں نکلے تھے اور ووٹوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔ آج اگر ہمارے سیاستدان مشکل حالات سے گزر کر تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے تو وہ ہمارے علاقے کے لیے اور کیا کر سکتے ہیں؟‘
پاکستان کے شہروں کو ایک طرف رکھیے، دیہی علاقوں میں بھی آپ کو پرائیویٹ سکولوں کا جال نظر آئے گا، لیکن اکیسویں صدی کے اس دور میں آپ کو جھاؤ کے علاقے میں ایک پرائیویٹ سکول تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔
جھاؤ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بلوچستان ایجوکیشن سسٹم نامی ایک تنظیم شروع کی اور وہ وسائل نہ ہونے کے باوجود علاقے کے لوگوں میں شعور و آگاہی کی مہم چلارہے ہیں۔
اس مہم کے روح و رواں شبیر رخشانی کے مطابق گرلز ہائی سکول نہ ہونے کے باوجود ہم نے علاقے کے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انہی حالات رہ کر ہمیں اپنی خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہو گا۔ شبیررخشانی کے مطابق گوٹھ عبدالستار نامی ایک علاقے میں بوائز سکول، جس میں طالب علموں کی کل تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے، وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب 70 فیصد ہے، جو کہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سوسائٹی یا کلچر کوپسماندگی سے جوڑنا قطعی طور پر غلط ہے۔
بلوچستان میں لڑکیوں کی پرائمری جماعت میں داخلے کی تعداد مناسب ہوتی ہے لیکن مڈل تک پہنچتے پہنچتے یہ تعداد کم اور ہائی سکول میں پہنچ کر مزید کم ہو جاتی ہے۔ جس صوبے میں خواتین مردوں کی نسبت شرح خواندگی صرف 27 فیصد ہو وہاں پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ شرح مزید گھٹ کر محتاط اندازے کے مطابق صرف سات فیصد رہ جاتی ہے۔
اس ضمن میں مزید تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ صوبے کے مختلف شہروں میں 40 فیصد ہائی سکول موجود ہی نہیں تو وہاں تعلیم کا تناسب کچھ ایسا ہی ہوگا. مندرجہ ذیل وجوہات وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان تعلیمی میدان میں دیگرصوبوں سے پیچھے نہیں، بہت پیچھے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1: وسائل کی کمی وسیع تر رقبے پر محیط اور آٹھویں ترمیم کے قانون کے باوجود بلوچستان کے کئی سکول ابترصورتحال کا شکار ہیں۔ 57 فیصد سکولوں میں بیت الخلا جیسی سہولت میسر نہیں ہے۔ بعض سکول ایسے ہیں جہاں چھت اور دیوار تک موجود نہیں۔ بلوچستان کے کئی سکولوں میں چار دیواری کا موجود نہ ہونا دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اگرانتہائی کم تناسب سے خواتین اعلیٰ تعلیم کی حصولی کی غرض سے بڑے شہروں کا رخ کرتی ہیں تو ان کے مسائل کم نہیں ہوتے، مزید بڑھ جاتے ہیں۔
آمنہ (فرضی نام) صوبے بھر کی واحد خواتین کی یونیورسٹی سردار بہادر خان یونیورسٹی میں تھرڈ ایئرکی طالبہ ہیں۔ آمنہ ضلع پنجگور سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے جب اپنے والدین کے سامنے اپنی اعلیٰ تعلیم کی خواہش کا مطالبہ کیا تو ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی تھا۔ آمنہ کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے لیے دو شہروں میں سے کسی ایک کا انتخاب (کراچی یا کوئٹہ) نہایت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
یونیورسٹی کے اخراجات کے ساتھ رہائش کا بندوبست کا بوجھ بہت سے والدین کے لیے ناممکنات میں شامل ہو جاتا ہے۔
2: کم عمری کی شادی کم عمری کی شادی بھی تعلیم میں رکاوٹ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ’اتنا پڑھ کر کیا کروں گی؟‘ جیسی سوچ معاشرے کی ایک بڑی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ’جتنا پڑھ لکھ لو، آخر کو چولہا ہی جلانا ہے۔‘ یہ ایک پڑھی لکھی عورت کی راہ میں رکاوٹ کا سبب ہے کم عمری میں گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اور بچپن کے میں ہی کتابوں کا چھن جانا ایک لڑکی کے لیے جسمانی اور ذہنی مسائل پیدا کرتا ہے۔
گذشتہ دنوں حب (بلوچستان) کے علاقے سے مقامی سماجی ورکروں کو اطلاع ملی کہ وہاں کی گرلز سکول کی پرنسپل صاحبہ نے نویں جماعت کی ایک طالبہ کو سکول آنے سے منع کر دیا ہے۔
جب اس سلسلے میں پرنسپل کا موقف لیا تو انہوں نے اس کی کچھ اس طرح وضاحت کی کہ نویں جماعت کی یہ طالبہ نہ صرف شادی شدہ اور حاملہ بھی ہے اور وہ اپنی ہم جماعتوں سے کچھ اس طرح کی گفتگو کرتی ہیں کہ دیگر طالبات کے والدین اعتراض کرتے ہیں۔
شادی شدہ خواتین کا تعلیم کو جاری رکھنا معاشرے کی ترقی میں اہم کردارادا کرتا ہے لیکن کچی عمر کی شادیاں وقت سے پہلے ذمہ داریوں کے بوجھ اور دیگرمسائل کی وجوہات بنتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق کسی بھی لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے۔ خلیل رونجھہ لسبیلہ کی غیرسرکاری تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تنظیم خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں خصوصی طور پر کام کرتی ہے۔ خلیل رونجھہ کے مطابق جہاں صوبہ بلوچستان تعلیم کے شعبے میں مسلسل زوال کا شکار تھا، وہیں موجودہ کرونا کی صورت حال کی وجہ سے ضلع بھر میں بچوں خصوصاً لڑکیوں کے داخلے میں خاصی کمی آئی ہے۔
’مزدور پیشہ وہ تمام والدین جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے تھے، وہ فیس نہ دینے کی وجہ سے دوبارہ گورنمنٹ سکولوں میں داخلے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
’حکومت کی ناقص حکمت عملی کرپشن، نااہلی اور ناقص پالیسیوں کے ساتھ ساتھ گھوسٹ ٹیچرز بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس کے خلاف اقدامات کرنے میں صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ پاکستان بھر کی طرح بلوچستان میں بھی گھوسٹ ٹیچرز یا تو سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے یا پھر لمبی رخصت کی درخواستوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، جس میں اچھی خاصی تعداد خواتین ٹیچرز کی بھی شامل ہے۔ اگر حکومت غیر حاضر اساتذہ کے معاملے میں سختی سے نوٹس لے تو سرکاری سکولوں کے ایک بڑے مسئلے اساتذہ کی کمی سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘
اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں، ورلڈ بینک، یورپی یونین کے اداروں اور یو کے ایڈ کے علاوہ دیگر کئی اداروں کی کئی سالوں پرمحیط امداد کے باوجود بلوچستان کم آبادی ہونے کے باوجود پنجاب کی خواتین کی شرحِ خواندگی 50 فیصد تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ کیچ (مکران) کا ایک ایسا علاقہ ہے جو ایک لمبے عرصے سے عسکریت پسندی کا شکار رہا ہے، لیکن اس کے باوجود تعلیمی اعتبار سے کیچ کے طالب علم ہمارے لیے ایک زندہ مثال ہیں۔ جہاں نصیر آباد جیسے شہروں میں گرلز سکولوں کو اوطاق کاحصہ بنا دیا گیا ہے، وہاں مند کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے اپنی زمین اپنے علاقے کی خواتین کے لیے وقف بھی کی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبے میں خواتین کی تعلیم کی شرح کو بڑھانے کے لیے گھوسٹ ٹیچرز کا خاتمہ کرے۔ سکولوں کی عمارت کو محفوظ اور مکمل تعلیمی ادارے کی شکل دے۔
سکول تک رسائی کے لیے ٹرانسپورٹ ایک بڑا مسئلہ ہے، ایک گوٹھ جہاں آبادی کم ہوتی ہے، وہاں سکول موجود نہیں ہوتا، لہٰذا میلوں سفر کر کے دوسرے گوٹھ جانا ایک مشکل مرحلہ ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ کمیونٹی بنیادوں پر اس پر کام کرے۔ ہائی سکول تک پہنچنے والی طالبات کو مناسب سکالر شپس دیے جائیں تاکہ ان کی راہ میں حائل مسائل کم ہو سکیں۔
ہم نے حکومتی موقف جاننے کے لیے صوبائی وزیر برائے تعلیم سردار یار محمد رند سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ گذشتہ ڈھائی سالوں میں ان کی وزارت نے اس سلسلے میں کیا خدمات پیش کی۔
ہمارے لیے ان کا موقف انتہائی اہم تھا کیونکہ وہ صوبائی حکومت میں رہتے ہوئے مرکز کا حصہ ہیں اور تعلیم جیسی اہم وزارت پر براجمان ہیں، لیکن شاید ان کے خود اپنے معاملات کی اپنی جماعت میں سیٹنگ نہیں ہو پا رہی ہے تو وہ کس طرح تعلیم جیسے اہم اور پیچیدہ مسائل کو حل کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے ہمارا رابطہ نہیں ہو سکا۔
بہرحال ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہم نے بہتر اور فوری اقدامات نہ کیے تو مرجان جیسی اور کئی بچیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گی۔