نئی دہائی کے پہلے رمضان کا پہلا پبلسٹی سٹنٹ حسب توقع عامرلیاقت کے قیامت خیز ناگن ڈانس سے شروع ہوا اور اب ساحر لودھی اسے چار چاند لگا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہاہاکار مچی ہے۔ شاہ رخ خان سے ازحد متاثر نظر آنے والے ساحر بڑے بڑے شاعروں کو لائن حاضر کیے بیٹھے ہیں۔
ویسے تو ساحر لودھی اس پر معافی بھی مانگ چکے ہیں لیکن سوشل میڈیا انہیں معاف کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ایک متاثرہ شاعر ادریس بابر نے بھی کہا ہے کہ ساحر لودھی بار بار ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور جان بوجھ کر کرتے ہیں۔
ویسے اس طرح کے تنازعے کوئی نئی بات بھی نہیں۔ رمضان ٹرانسمیشن میں ہر سال کسی نہ کسی چینل سے ایسی ایسی اختراعات سامنے آتی ہیں کہ پورے ملک میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔ ایسے شغل لگانے میں عامر لیاقت اور ساحر لودھی کا کوئی ثانی نہیں۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ بھی ایک پبلسٹی کا ہتھکنڈا ہے۔
رمضان ٹرانسمیشن میں افطار سے پہلے روزے کا ’ٹچ‘ دینے کے لیے تقریری مقابلے، کوئز راؤنڈ اور بیت بازی ہوتی ہے اور روزہ کھلتے ہی چھچھور پن کے عالمی مقابلوں میں انعامات کی بارش ہوتی ہے۔ چند بڑے چینلوں نے دونوں ٹائپ کی ٹرانسمیشن کے لیے الگ الگ میزبان رکھے ہوئے ہیں لیکن ساحراور عامر بھائی کے کیا کہنے کہ دونوں ہر فن مولا ہونے کی بنا پر سوانگ بھرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ دونوں کبھی وہ علما کے ساتھ بیٹھ کر مذہب کے پیغام پر روشنی ڈالتے ہیں تو کبھی ’جون بھائی‘ کی روح کو تڑپاتے ہیں۔ یوں چینل کا خرچ بچتا ہے اور ایک تیر سے ہوتے ہیں کئی شکار۔ بقول شیفتہ:
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
حالیہ تنازع ساحر لودھی نے کھڑا کیا ہے۔ سب سے پہلے شامت آئی ’جون بھائی‘ کی۔ ساحر کی کنفیوژن کا حال دیکھیے۔ بیت بازی کے پروگرام میں نوجوان نے جون ایلیا کا شعر پڑھا:
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا / تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
یہ سن کر ساحر بھائی کا فیوز اڑ گیا، ’یہ جون ایلیا کا شعر ضرور ہے، رنگ وہی ہے جون بھائی کا۔ لیکن آئی ڈونٹ تھنک جون بھائی اس طرح کے۔ ۔ ۔ تم سے مل کر خوشی ہو کیا، یہ تو عجیب سی بات ہو جائے گی، یہ شعر جون ایلیا کا نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟‘
بیت بازی کا یہ کوئی اصول نہیں کہ شعر پڑھنے والے اس کا مطلب بھی بتائے۔ طالب علم نے اسی کی رو سے کہا، ’جون سے پوچھیں، انہوں نے لکھا ہے۔‘
ساحر: ’ابے بھائی معاف کر دو۔‘ ساحر نے کچھ منصف بھی بٹھائے ہوئے تھے۔ ایک منصفہ نے سونے میں تولنے والاجملہ بولا، ’جون ایلیا سے پوچھنے کے لیے تو عالم بالا میں جانا پڑے گا؟‘
ساتھ ہی ساحر بھائی نے فیصلہ دے دیا، ’میں کچھ نہیں کہہ سکتا ججز کا فیصلہ ہے، میرے لیے یہ شعر نہیں ہے۔‘
اس ویڈیو کو دیکھنے والا خود کنفیوز ہو جاتا ہے کہ وہ ادبی سیگمنٹ دیکھ رہا ہے یا کامیڈی شو؟ اس پر ہنسا جائے یا رونا ہو گا؟
ہم ادبّی زوال کے اُس قرینے پہ پہنچ گئے ہیں کہ جون ایلیاء کے کلام سے ساحر لودھی غلطیاں نکال رہا ہے۔ https://t.co/Ds4n2fUEWi
— Ahmed Lak (@PrescribedMyths) May 1, 2021
’جون بھائی‘ کی گردان تو وہ ایسے کر رہے ہیں جیسے ان کے چاچا کا لڑکا ہو۔ اپنے مزاج کی برہمی کے لیے مشہور جون بھائی اگر حیات ہوتے تو اپنے تایا کے لونڈے کو بتاتے کہ شاعری کیا ہوتی ہے۔ میزبان کی قابلیت اپنی جگہ منصفین کی بے اعتنائی حد سے سوا ہے۔ پورے کلپ میں ایک عدد خاتون اور ایک صاحب مخمور نگاہوں سے سر ہلاتے نظر آئے۔ لگتا تھا ان کی نیند پوری نہیں ہوئی۔ کسی نے بتایا موصوف ایک مشہور آر جے ہیں جو اپنے پروگراموں کے ذریعے لوگوں کی نیندیں اڑانے کا فن جانتے ہیں۔
ابھی جون بھائی کی گردان ختم نہ ہوئی تھی کہ شامت آئی ناصر کاظمی کی۔ ممکن ہے جون بھائی نے ساحر بھائی سے ہاتھ کیا ہو۔ سارا کلام گھول کے پلایا لیکن ’گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا‘ کو صاف چھپا گئے ہوں۔ لیکن ایسا ممکن ہی نہیں کہ اردو شاعری سے معمولی سا شغف رکھنے والا شخص ناصر کاظمی کے زبان زد عام شعر ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر / اداسی بال کھولے سو رہی ہے سے واقف نہ ہو۔
جیسے ہی طالبہ نے شعر پڑھا، ساحر بھائی نے ترنت فیصلہ دیا، ، ’اداسی بال کھولے سو رہی ہے‘ یہ تو ٹھیک ہے لیکن پہلا مصرع بالکل غلط ہے۔ ابھی مجھے یاد نہیں آرہا کہ مصرع ہے کیا، لیکن یہ غلط ہے۔‘ پھر جج صاحب کو مخاطب کر کے، ’آپ لوگ بتائیں۔ یہاں منصف صاحب نیند سے جاگے، عالمانہ انداز فکر اپنا کے فرمایا، ’ہاں یہ صحیح نہیں ہے۔‘
اردو شاعری کی آبرو کہے جانے والے استاد شعرا کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بعد باری آئی، موجودہ شعرا کی۔
ادریس بابر عمدہ شاعر ہیں اور اچھوتے موضوعات پر شعر کہنے کے لیے مشہور ہیں۔ ایک طالب علم نے ان کا شعر پڑھا،
اپنے محبوب کو اجازت دو / کہ وہ خوش رہ سکے تمہارے بغیر
تو فوراً کہہ اٹھے، ’ہیں؟‘ پھر پوچھا، یہ ادریس بابر کون ہیں؟ اس سے میرا التماس ہے کہ اس پر کرم فرمائیے، دوبارہ فرمائیں۔‘
گویا ساحر ادریس بابر کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ کا شعر درست نہیں ہے، اسے دوبارہ کہہ کر لائیں۔
ادریس بابر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ساحر کو خود اپنے پروفیشن کی عزت کا کوئی خیال نہیں کہ وہ یہ کام نیشنل ٹی وی پر سرانجام دے رہے ہیں، کیا وہ اپنی جاب کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں؟ میرا نہیں خیال۔‘
ادریس نے مزید کہا کہ ’ان کا برسوں سے یہی وتیرہ رہا ہے اس لیے معافی مانگنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور یہ کام ایک آدھ دفعہ نہیں، بار بار ہو رہا ہے۔‘