پورے پاکستان میں سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں تفریق کو لے کر پریشان ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ چند من پسند افسران اپنی مرضی کی تنخواہ وصول کرتے ہیں جبکہ باقی محکموں کے ملازمین کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک ہی پے سکیل پر عدلیہ اور محکمہ تعلیم میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں ہزاروں روپے کا فرق ہے۔
اس تفریق کے حوالے سے حکومت نے پے اینڈ پینشن کمیشن کو ازسرنو تشکیل دے کر اسے گذشتہ برس نومبر میں ٹاسک دیا تھا کہ وہ چھ ماہ کے اندر اور آئندہ بجٹ سے پہلے تنخواہوں کے حوالے سے سفارشات تیار کریں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، مراعات اور الاؤنس کی مد میں تفریق کے حوالے سے سرکاری ملازمین گرینڈ الائنس کے جنرل سیکریٹری پنجاب پروفیسر ندیم اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بیوروکریسی کے تمام افسران 150 فیصد اضافی تنخواہ اور مراعات وصول کرتے ہیں جبکہ باقی ملازمین کو کسی بھی مد میں کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عدلیہ، قومی احتساب بیورو (نیب) اور انتظامی افسران کی تنخواہوں کے علاوہ اضافی الاؤنس ہیں جبکہ حال ہی میں نئے نوٹیفیکیشن نکالے گئے، جس میں ان اداروں میں بنیادی تنخواہ کا ڈیڑھ سو فیصد الاؤنس شامل کیا گیا۔
ایک سرکاری ذرائع کے مطابق یکساں گریڈ رکھنے والے مختلف اداروں کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مختلف ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
سب سے زیادہ تنخواہ اور الاؤنس عدلیہ میں ہیں، دوسرے نمبر پر نیب، ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کے محکمے ہیں۔
ملازمین کا احتجاج اور حکومت کی یقین دہانی
گذشتہ برس بھی سرکاری ملازمین کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جبکہ رواں برس 10 فروری کو وفاقی حکومت کے وزرا اور سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کے دوران وہاں آ کر تنخواہیں بڑھانے کی یقین دہائی کرائی تھی۔
ندیم اشرفی نے بتایا کہ رواں برس مارچ میں وفاق نے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا، جس کے تحت سیکریٹریٹ کے علاوہ مزید دو ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں الاؤنسز بڑھائے گئے جبکہ وفاق نے صوبوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ بھی اپنے بجٹ سے اپنے اپنے صوبے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل کریں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اگلا بجٹ آنے والا ہے لیکن ابھی تک پنجاب حکومت نے کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا اور اگر رواں ماہ بھی تنخواہ کا پیکج/ الاؤنس نہ بڑھایا گیا تو آئندہ بجٹ میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔‘
ندیم اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کے پونے سات لاکھ سرکاری ملازمین ڈیسپیرٹی ریڈکشن الاؤنسر (ڈی آر اے) الاؤنس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب میں ڈی آر اے حصول کے لیے مذاکرات کے نتیجے میں ڈی آر اے کا عمل مارچ میں شروع ہوا۔
ندیم اشرفی نے بتایا کہ ’مذاکرات میں طے پایا تھا کہ چار ماہ کا ڈی ار اے اور 25 فیصد ڈسپیرٹی ریڈکشن الاوئنس پر وزیر خزانہ کے ساتھ ساتھ تمام کمیٹی ممبران متفق ہیں لیکن تاحال کوئی کاغذی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔‘
ڈی آر اے الاؤنس کیا ہے؟
اس حوالے سے ندیم اشرفی نے بتایا کہ یہ الاؤنس بنیادی طور پر تنخواہوں میں فرق ختم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے اور تنخواہوں کی تفریق کو ختم کرنے کے لیے ہی اس الاؤنس کا اعلان کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ رواں برس اپریل میں گریڈ 17 سے 22 تک عدلیہ، ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، پارلیمنٹ اور چیف منسٹر آفس کے ملازمین کی بنیادی تنخواہ 150 فیصد الاؤنس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا، جس کا اطلاق رواں برس فروری سے ہوگیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوٹیفیکیشن کے مطابق بڑے پیمانے پر انتظامی افسران کو بنیادی تنخواہ کا 150 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس، عدلیہ کے ملازمین کو جوڈیشل الاؤنس اور محکمہ خوراک کو بھی 100 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے محکموں کے سرکاری ملازمین کو نظر انداز کیا گیا، جس کے لیے ڈیسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کے لیے سرکاری ملازمین گرینڈ الائنس کام کر رہی ہے۔
دوسری جانب وزارت خزانہ حکام کے مطابق ڈیسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس گریڈ ایک سے گریڈ 19 تک کے ملازمین کے لیے ہے، لیکن یہ تمام سرکاری ملازمین کو نہیں ملے گا۔
یہ صرف ان ملازمین کو ملے گا جنہیں ان کی بنیادی تنخواہ کے برابر یا اس سے زیادہ اضافی الاؤنس کبھی نہیں ملا، لیکن جو ملازمین پہلے سے اپنی بنیادی تنخواہ کا 100 فیصد یا زائد الاؤنس لے رہے ہیں وہ اس الاؤنس کے اہل نہیں۔
پنجاب کے سرکاری ملازمین کے تخفظات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سے رابطہ کیا اور انہیں سوالات بھی بھجوائے لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔