تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ نہ ہونے کے باعث ملک بھر کے سرکاری ملازمین کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
خیبر پختونخوا کے سینکڑوں سرکاری ملازمین نے بھی دوران بجٹ صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا اور نئے بجٹ کو ملازمین کا معاشی قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے۔
دوسری جانب اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ملازمین بھی کئی دن سے سراپا احتجاج ہیں، لہذا وہ بھی ان مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگئے۔
آل یونیورسٹیز ایمپلائیز فیڈریشن کے صوبائی صدر صلاح الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ کئی دنوں سے جاری ہے، جس میں کلاس ون سے لے کر گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین شامل ہیں۔
آج کے احتجاج کے حوالے سے صلاح الدین نے بتایا کہ صوبے بھر سے مختلف ایسوسی ایشنز، یونینز اور فیڈریشنز کے تقریباً تین ہزار ملازمین احتجاج میں شرکت کے لیے آئے۔ آغاز میں موٹروے انٹر چینج پر پولیس نے مظاہرین کو روکا، لیکن بعد میں بات چیت سے مسئلہ حل ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ احتجاج تب تک جاری رہے گا جب تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو جاتا۔
دوسری جانب اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں بھی پچھلے آٹھ دن سے مسلسل احتجاج جاری ہے۔ اس حوالے سے صلاح الدین نے بتایا کہ 'ان ملازمین کا مسئلہ نوکریوں کی بحالی کا ہے جب کہ صوبے بھر سے احتجاج کرنے والے ملازمین تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں۔'
(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)
انہوں نے کہا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے کرونا وائرس کی وبا آنے پر تقریباً 196 ڈیلی ویجرز اور دیگر ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا تھا، لہذا اب یہ ملازمین بحالی چاہتے ہیں۔
صلاح الدین نے بتایا کہ بحالی کے علاوہ ان کے بعض اور بھی مطالبات ہیں اور وہ بحیثیت فیڈریشن کے صوبائی صدر اس معاملے کی جانچ پڑتال بھی کر رہے ہیں۔
’حال ہی میں یونیورسٹی سے نکالے گئے ملازمین عدالت سے ایک عبوری ریلیف لے کر آئے، جس کے نتیجے میں کل ملازمین اور وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد کے درمیان مذاکرت ہوئے۔ دوران مذاکرات انتظامیہ نے وی سی کو کسی فیصلے پر پہنچنےکا موقع دیے بغیر اپنافیصلہ سنا دیا اور کہا کہ جب عدالت کا فیصلہ آئے گا تو تب دیکھا جائےگا۔ یوں یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔‘
اسلامیہ کالج کے ملازمین نے بھی ان ہی خیالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر انتظامیہ کے سامنے بےبس ہیں، اسی لیے وہ اپنی کوئی رائے یا اختیار نہیں رکھتے، تاہم ڈاکٹر نوشاد ان تمام الزامات کی تردید کرتے آرہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ملازمین نے وائس چانسلر کا علامتی جنازہ کندھوں پر اٹھا کر انوکھا احتجاج بھی کیا، جس پر چسپاں ایک کارڈ پر جلی حروف میں لکھاتھا: ’وائس چانسلر کو کس نے مارا ہے؟ افسوس! اس کی اپنی انتظامیہ نے مارا ہے۔‘
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے کلاس فور ملازمین کے یونین کے صدر ذین اللہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے پاس فنڈز موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ملازمین کو نہ صرف نوکریوں سے نکالا گیا ہے بلکہ واجبات بھی نہیں دیے جارہے۔
’ہمارا مطالبہ ہے کہ کنٹریکٹ اور ڈیلی پیڈ ملازمین کو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے اور پروموشنز دی جائیں۔‘
کلاس فور یونین کے صدر نے مزید بتایا کہ نوکریوں سے نکالے جانے والے یہ ملازمین کئی سالوں سے تعینات تھے اور ان میں سے زیادہ تر اپنے والدین کی جگہ بھرتی ہوئے تھے۔
(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وبا کے دوران تمام سرکاری ملازمین مسلسل کام پر حاضر رہے، لہذا وہ حق بجانب ہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں، تاہم دوسری جانب کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس احتجاج کو بے جا اور زیادتی قرار دے رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے آج ہونے والے اس احتجاج میں شریک ایک شخص ایسے بھی تھے، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'احتجاج میں شریک ہونا ان کی مجبوری ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جن حالات سے یہ ملک گزر رہا ہے اس میں اگر صرف کسی کو تنخواہ بھی باقاعدگی سے ملتی رہے تو یہ بھی بڑی بات ہے۔'
انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا: 'کیا ہم جی ٹوئنٹی ممالک سے زیادہ صاحب حیثیت ہیں؟ انہوں نے اپنے ملکوں میں تنخواہوں میں کمی کر دی اور پاکستان اب بھی پوری تنخواہیں دے رہا ہے۔ ہمارے کلاس فور میں 45 سے 50 ہزار تک تنخواہ لینے والے لوگ ہیں۔ پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تنخواہیں بڑھ جائیں۔میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر یہ ملک ان حالات میں تنخواہیں کیسے دے رہا ہے۔ ان میں اضافہ تو دور کی بات ہے۔'
آج پشاور میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ملازمین کی کوآرڈینیشن کونسل کا کہنا ہے کہ پیر کے روز سے ان کے احتجاج کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔