القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام سے فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔
صوبہ پنجاب کی ساہیوال جیل میں پابند سلاسل ڈاکٹر شکیل آفریدی قبائلی علاقوں کے پرانے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کے تحت قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
انضمام سے صرف ڈاکٹر شکیل آفریدی ہی مستفید نہیں ہوں گے بلکہ فاٹا کی عدالتوں سے سزا یافتہ دوسرے ہزاروں افراد کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے مطابق سابق فاٹا کی عدالتوں میں زیرِ التوا تمام کیس بشمول اپیلیں اب باقاعدہ عدالتوں میں سنی جائیں گی۔
سابق فاٹا میں ایف سی آر کے قانون کے تحت قائم عدالتوں کی صدارت انتظامی افسران یعنی پولیٹیکل ایجنٹ (پی اے) اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ (اے پی اے) کرتے تھے۔
عبدالطیف آفریدی کے مطابق: ’وہ عدالتیں کسی قانون یا ضابطے کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتی تھیں بلکہ انتظامی افسران کی مرضی پر چلتی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ نہ وہاں کوئی شہادت ہوتی تھی اور نہ ہی کسی ثبوت کے پیش کیے جانے کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ اکثر ’فیصلے غلط اور بدنیتی پر مبنی‘ ہوتے تھے۔
فاٹا کی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا واحد فورم فاٹا ٹریبونل تھا، جو سینئیر ریٹائرڈ سرکاری افسران اور ایک وکیل پر مشتمل ہوتا تھا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکیل قمر ندیم کا کہنا ہے کہ فاٹا کی کسی بھی عدالت میں قانون سے واقفیت رکھنے والے لوگ نہیں ہوتے تھے اور اسی وجہ سے اکثر فیصلے انصاف اور قانون کے تقاضوں سے متصادم ہوتے تھے۔
گذشتہ سال سابقہ فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام عمل میں آیا، جس کے بعد قبائلی علاقوں کی عدالتوں میں تمام کیس انسداد دہشت گردی، سول ججز اور سیشن ججز کی عدالتوں کو منتقل کیے جا رہے ہیں، جبکہ فاٹا ٹریبونل میں زیر التوا اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں سنی جائیں گی۔
قمر ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سابقہ فاٹا کی عدالتوں میں زیر التوا تقریباً چار ہزار کیس اور اپیلیں خیبر پختونخوا کے محکمہ قانون کو منتقل کی گئی ہیں، جہاں سے ہر کیس متعلقہ عدالت کو بھیجا جا رہا ہے۔
قمر ندیم کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل اب پشاور ہائی کورٹ کا بنچ سنے گا، تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی اس اپیل میں تاریخ نہیں لگی ہے۔
مئی 2011 میں امریکی افواج نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں رات کی تاریکی میں ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے چند روز بعد اُس وقت کی قبائلی ایجنسی خیبر کے ایجنسی سرجن ڈاکٹر شکیل آفریدی کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں غیر ملکیوں کو مدد فراہم کی تھی۔
ان پر اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ باڑہ کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، جہاں سے مئی 2012 میں انہیں کالعدم عسکریت پسند تنظیم لشکر اسلام کو مالی اور طبی معاونت فراہم کرنے پر قید کی سزا ہوئی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی نے سزا کے خلاف فاٹا ٹریبونل میں اپیل دائر کر رکھی ہے، جو اب پشاور ہائی کورٹ کو بھیجی جائے گی۔
عبدالطیف آفریدی نے بتایا کہ فاٹا کی عدالتوں کے کیس باقاعدہ عدالتوں میں منتقل ہونے سے ان کیسوں میں کسی بھی طرح سے ملوث تمام لوگوں کو فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ کیس اور اپیلیں باقاعدہ عدالتوں میں سنی جائیں گی، جہاں بحث ہوتی ہے، ریفرنسز دیے جاتے ہیں اور شہادتیں اور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان عدالتوں میں قانون جاننے والے جج بیٹھے ہوتے ہیں، جو تمام قانونی تقاضوں کو ہر صورت پورا کرتے ہیں اور اپنے ذاتی عناد یا پسند نا پسند کو درمیان میں نہیں لاتے۔
عبدالطیف آفریدی جو فاٹا کی عدالتوں میں بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی نمائندگی کر چکے ہیں، نے کہا کہ جب بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیس لگتا ہے تو وہ اس میں پیش ہوں گے۔
قمر نوید کا بھی خیال تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل پشاور ہائی کورٹ منتقل ہونے سے ان کے کلائنٹ کو یقیناً فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ فاٹا ٹریبونل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل کی کئی تاریخیں لگی تھیں لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
ان کا خیال تھا: ’ٹریبونل کے اراکان شاید کوئی فیصلہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ صرف وقت ضائع کر رہے تھے۔‘
قمر ندیم کا کہنا تھا کہ ان کا کیس بہت مضبوط ہے اور وہ پرامید ہیں کہ ان کے موکل کو صحیح معنوں میں انصاف ملے گا اور جلد ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی سمیت قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہائی کورٹ کے بعد وہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرسکیں گے۔
سابقہ فاٹا میں ایسی سہولت موجود نہیں تھی۔ وہاں فاٹا ٹریبونل آخری فورم تھا اور اس کے فیصلوں کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے انڈپینڈنٹ اردو سے چند روز قبل ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مستقبل کی کسی ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کے تبادلے پر بات کر سکتے ہیں۔