پاکستان نے بھارت میں غیرمجاز افراد سے سات کلوگرام خام یورینیئم تحویل میں لیے جانے کی اطلاعات پر تشویش کااظہار کیا ہے۔ یہ یورینیئم انتہائی تابکار اور انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے ہفتے کو میڈیا بریفنگ کے دوران بھارت میں قدرتی یورینیئم کو تحویل میں لیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا: 'جوہری مواد کا تحفظ تمام ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اس معاملے میں مکمل تحقیقات ہونی چاہییں کہ اتنی بڑی مقدار میں یورینیئم ریاستی کنٹرول سے باہر کس طرح دستیاب ہوئی اور ان خامیوں کی نشاندہی کی جائے جن کی بنا پر ایسا ممکن ہوا۔'
یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کو بھارتی ریاست مہاراشٹر میں پولیس نے تقریباً 29 لاکھ ڈالر مالیت کی سات کلوگرام قدرتی یورینیئم قبضے میں لے کر دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ انہیں انتہائی تابکار مواد 'غیرقانونی طور پر اپنے قبضے' میں رکھنے پر گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق دونوں ملزمان کے خلاف ایٹمی توانائی ایکٹ 1962 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔گرفتار ملزمان میں27 سالہ جگرجیش پندیا اور 31 سالہ ابو طاہر افضل حسین چوہدری شامل ہیں۔
اس سے پہلے ممبئی میں واقع بھابھا اٹامک ریسرچ سنٹر (بی اے آر سی) نے تصدیق کی تھی کی پولیس کی طرف سے پکڑا گیا مواد انتہائی تابکار ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2017 میں بھارتی بلیک مارکیٹ سے نو کلوگرام یورینیئم برآمد کی گئی تھی۔ بھارت میں یورینیئم کی بلیک مارکیٹ بڑا کاروبار ہے اور یورنیئم عالمی مارکیٹ میں سمگل کرنے کے لیے نیپال کی سرحد استعمال کی جاتی ہے۔ مارچ 2021 میں نیپالی پولیس نے رانی پوکھری کے علاقے میں مکان پر چھاپہ مارا تھا جہاں ڈھائی کلو گرام یورینیئم ذخیرہ کی گئی تھی۔ یہ یورنیئم بھارت سے سمگل کی گئی تھی جسے پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔