یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
حریت کانفرنس (گ) کے رہنما محمد اشرف صحرائی پہلے کشمیری نہیں ہیں جو اسیری کے دوران انتقال کر گئے البتہ وہ پہلے رہنما ہیں جو بھارت میں کرونا کی بڑھتی ہوئی لہر کے دوران جیل میں شدید علالت اور بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بیشتر قانونی ماہرین ان کی موت کو ماورائے عدالت قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔
بھارت کی 1350 جیلوں کی صورت حال ویسے بھی بدترین ہے جہاں تقریباً ساڑھے چار لاکھ قیدیوں کے لیے صحت کیا، بنیادی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ اکثر جیل کرونا وائرس کی شدید لہر کی زد میں آئے ہیں جس کے پیش نظر دوسری بار سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو صلاح دی کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
عدالت کی اس سفارش کا اطلاق ان قیدیوں پر نہیں ہوتا جن کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس زمرے میں تقریباً وہ سبھی کشمیری قیدی آتے ہیں جنہیں بھارت کی حاکمیت اور سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے کر پی ایس اے کے تحت اسیر بنا لیا گیا ہےحالانکہ کئی برسوں کی قید کے باوجود ان کے مقدمات کی سماعت تک شروع نہیں کی گئی ہے۔ ایک معروف وکیل کے مطابق ’بھارت کے تفتیشی ادارے جیلوں میں محبوسین کو ڈرا دھمکا کر تحریک آزادی سے دست بردار ہونے پر دباو ڈالتے جا رہے ہیں۔ ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔‘
جموں و کشمیر کی بار ایسوسی ایشن نے کشمیری قیدیوں کو بھارتی جیلوں سے کشمیری جیلوں میں منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر حکومت نے اعتراض کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کر دی کہ یونین ٹریٹری کے بعد چونکہ ریاستی شہریت ختم ہو گئی ہے اس لیے کشمیریوں کو ملک کی کسی جیل میں اب مقید رکھا جاسکتا ہے۔ چند روز پہلے ہی 31 قیدیوں کو جموں وکشمیر سے باہر ہریانہ منتقل کر دیا گیا جہاں کرونا کا قہر زور پر ہے۔
یاسین ملک کے ایک قریبی رشتہ دار نے مجھے بتایا کہ ’سرکاری دلائل ایک ایسی گہری کھائی کے مانند ہیں کہ جس میں گرنے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے اور یہ کھائی خاص طور سے یاسین ملک کے لیے گہری بنتی جا رہی ہے۔‘
بقول حبیب جالب:
میں بھی خائف نہیں تختئہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔۔۔۔
یاسین ملک کی نو برس کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے کئی بار اپنے والد کو دیکھنے یا بات کرنے کی درخواست کی لیکن نہ تو ان کے کیس کی سماعت ہوتی ہے اور نہ انہیں کسی سے ملنے کی اجازت ہے۔
کشمیر کے تقریباً دو درجن سے زائد آزادی پسند رہنما اس وقت بھارتی جیلوں میں اسیر ہیں جن میں محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، شاہد الاسلام، نعیم خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حریت کی جو دوسری قیادت ہے جن میں سید علی شاہ گیلانی یا میر واعظ عمر فاروق وغیرہ شامل ہیں انہیں گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے اور سخت بندشوں میں ایام زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عام شہری جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں کئی برسوں سے جیلوں میں بند ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
چند برس پہلے میں جموں کے جیل کورٹ بلوال میں آزادی پسند رہنما مسرت عالم سمیت دو درجن سے زائد ایسے نوجوانوں سے ملی تھی جنہوں نے زنداں کی سختیوں کے بارے میں مجھے بتایا لیکن میں نے اپنی بے بسی کو شرمساری کے آنچل میں چھپایا۔
سید علی شاہ گیلانی کی نواسی نے چند روز پہلے تہاڑ میں اسیر والد کے بارے میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’مجھے اپنے والد سے پانچ منٹ بات کرنے کا موقعہ ملا۔ میرے والد ٹھیک نہیں لگے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تہاڑ میں 250 قیدی کرونا میں مبتلا ہیں اور روزانہ دو قیدی اس وبا سے فوت ہو جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظاہر ہے کہ جس بھارت میں ہزاروں لوگ اس وقت بیڈ، آکسیجن اور ادویات کے لیے ترس رہے ہوں، جہاں دریاؤں میں لاشوں کو چھوڑا جا رہا ہو یا آخری رسومات کے لیے شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں مل رہی ہو اس بھارت کی قیادت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
جو لیڈرشپ اپنے عوام کی بے بسی اور بے حرمتی پر دو لفظ نہ کہے وہ شبیر شاہ کی دختر سحر شاہ کی دلدوز پکار کہاں سن پائی گی۔ وہ ہر اگلے روز سوشل نیٹ ورک پر اپنے والد کی طبی جانچ کروانے کی ایپلیں کرتی رہتی ہے اور بقول سحر ’سپریم کورٹ کے نامور وکیل کیس لڑنے کی بجائے مجھے صلاح دیتے ہیں کہ شبیر شاہ کا معاملہ سیاسی نوعیت کا ہے اور عدالت سے انصاف کی امید رکھنا وقت ضایع کرنا ہے۔‘
سرکاری ادارے سحر شاہ کی آخری لائف لائن ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بار بار بند کروا کے انہیں بس خاموش کرتے رہتے ہیں۔
اشرف صحرائی کی طبیعت کافی دنوں سے بگڑی ہوئی تھی۔ اس کا انکشاف انہوں نے اپنے بیٹے مجاہد صحرائی سے انتقال سے چند روز پہلے کیا تھا مگر ان کا علاج کون کرواتا جب ان سے ملنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے مہینوں عدالتوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ان کی موت اب ایک معمہ ہے۔ کیا وہ کرونا سے انتقال کر گئے یا جیل کی سختیوں کو اس عمر میں مزید برداشت نہیں کر پائے؟ اس کا تعین کون کرے گا جب انتظامیہ، پولیس اور عدالتیں بی جے پی کے ترجمان بن گئے ہیں۔ پھر جب 77 سال کے شخص کو ایک بڑی جمہوریت کی سالمیت اور سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہو تو پھر سوال کرنے کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے کیا؟
سوال کرے بھی تو کون کرے؟
جو 80 لاکھ کشمیری سوال کرتے وہ تو ایک بڑی جیل میں گذشتہ دو برسوں سے خود محبوس ہیں۔ اس پر دنیا کی مجرمانہ خاموشی بدستور قائم ہے۔