بھارتی حکام نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جمعرات کو تین بھارت نوازسیاسی رہنماؤں کو رہا کر دیا ہے۔ بھارت پر کشمیر میں دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری پابندیوں میں نرمی کے لیے عالمی دباؤ تھا۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا تھا جبکہ انٹرنیٹ اورموبائل فون سروس بند کر دی گئی تھی۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تین کشمیری رہنماؤں کی رہائی کا فیصلہ اس اعلان کے کئی دن بعد کیا گیا ہے جس میں بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ سیاحوں کو علاقے میں واپس آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگست میں سلامتی کے خدشات کے پیش نظر سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کی ہدائت کی گئی تھی۔
بھارت کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق رہا کیے جانے والے سیاستدانوں میں یاور میر، نورمحمد اور شعیب لون شامل ہیں۔ تینوں سیاسی شخصیات بڑے سیاستدانوں میں شامل نہیں ہیں۔
یاور میر کا تعلق جمو ں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ شعیب لون نے کانگریس کی ٹکٹ پر شمالی کشمیر سے الیکشن لڑا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے جس کے بعد انہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ نور محمد نیشنل کانفرنس کے کارکن ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق رہائی سے پہلے ان رہنماؤں سے بانڈ پر دستخط لیے گئے جس میں انہوں نے ’امن قائم رکھنےاور اچھا برتاؤ رکھنے‘ پر رضامندی ظاہر کی۔
سرکردہ کشمیری رہنما جن میں بعض ایسے سیاستدان بھی شامل ہیں جنہوں نے مسلم اکثریتی کشمیر پر بھارتی حاکمیت تاریخ کے اعتبار سے تسلیم کر لی تھی، ابھی تک جیلوں میں ہیں یا گھروں پر نظر بند ہیں۔
سرسبز پہاڑوں، سکی کے کھیل کے مقامات، جھیل پر بنے گھروں اور سیب کے باغات کی بدولت کشمیر سیاحوں کے لیے بے حد کشش کا سبب ہے لیکن بھارت کے سخت کریک ڈاؤن اور اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی وجہ سے علاقے میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کشمیری عوام نے بھارتی اقدامات کے خلاف مہم کا آغاز کرتے ہوئے معمول کی زندگی کی جانب واپس آنے سے انکار کر دیا ہے۔
جمعرات کو کچھ بھارتی سیاح کشمیر پہنچے ہیں۔ جھیل میں کھڑی کشتیوں پر بنے گھروں کے مالکان کی تنظیم کے رہنما ولی محمد نے شکایت کی ہے کہ پہلے حکومت نے سیاحوں کو علاقے سے جانے پر مجبور کیا اور اب انہیں واپسی کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’علاقے میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔ فون کام نہیں کرتے اور ٹرانسپورٹ بھی دستیاب نہیں ہے۔ ان حالات میں سیاح یہاں آ کر کیا کریں گے؟‘
بھارت کی مشرقی ریاست بہار سے آنے والی ایک خاتون سیاح انیتا رائے نے کہا ہے کہ وہ خوف زدہ نہیں ہیں لیکن انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ضرور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین تھوڑے بہت پریشان ہو سکتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سے رابطہ نہیں کر سکتیں۔ انہیں کسی طرح یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اہم یہاں محفوظ ہیں اورتفریح کر رہے ہیں۔ علاقے میں ہر جگہ سیکیورٹی فورسزموجود ہیں اس لیے ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہے۔
ایک اور سیاح اتل کمار نے شکایت کی کہ زیادہ تر دکانیں بند ہیں اور دکانیں کھلی ہوتیں تو اچھا ہوتا۔ ہم کسی قدر اکیلا پن محسوس کر رہے ہیں۔