لاہور: ’رشوت لے کر کرونا ویکسین باری سے پہلے لگائی جاتی رہی‘

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے پی کے ایل آئی ہسپتال میں بنائے گئے ویکسینیشن سینٹر کے اندر پیسے لے کر کم عمر افراد کو کرونا ویکسین لگانے میں ملوث 18 ہیلتھ افسران معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ ہسپتال (پی کے ایل آئی) میں بنائے گئے ویکسینیشن سینٹر میں کم عمر افراد کو پیسے لے کر کرونا ویکسین لگانے میں ملوث 18 ہیلتھ افسران معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔

کمشنر لاہور کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں کچھ لوگوں کی جانب سے شکایات موصول ہوئی تھیں اور مجھے ذاتی طور پر بھی بتایا گیا کہ پی کے ایل آئی میں پیسے لے کر کرونا ویکسین لگائی جا رہے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کی دو وجوہات تھیں جس کے لیے یہ ورکر پیسے لے رہے تھے، ایک تو باری کے بغیر لوگ اپنے آپ کو ویکسینیٹ کروانا چاہتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ جن عمروں کے گروپس کی ابھی ویکسینیشن شروع نہیں ہوئی وہ چاہتے تھے کہ انہیں بھی کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگ جائے۔‘

’ہمارے لوگوں نے شکایات موصول ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر سے انکوائری کا کہا جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ضلعی حکومت کے 18 ہیلتھ ورکرز جن میں نچلے لیول کا سٹاف شامل ہے، اس کام میں ملوث تھے۔‘

کمشنر لاہور محمد عثمان نے مزید بتایا کہ ان ہیلتھ ورکرز کو فوری طور پر معطل کر کے سینٹر سے باہر کیا گیا اور ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔ معطل ہونے والے تمام سٹاف کا تعلق ضلعی محکمہ صحت سے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ کسی اور شعبے کا کوئی شخص اس میں شامل نہیں اور ان سب کا تعلق پی کے ایل آئی کے ویکسینیشن سنٹر سے ہے۔

کمشنر لاہور کہتے ہیں کہ ’ہم پرعزم ہیں کہ ہماری کرونا کے خلاف جنگ میں اس طرح کے غلط عناصر کو کسی بھی سطح پر آگے نہیں آنے دیں گے۔‘

محکمہ صحت پنجاب کے مطابق پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ پنجاب حکومت کا ایک سٹیٹ آف دی آرٹ پراجیکٹ ہے جس کا افتتاح 2017 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کیا تھا۔

لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کے علاوہ دیگر بیماریوں کا علاج بھی یہاں کیا جاتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مریض یہاں آتے ہیں جب کہ اب تک یہاں ڈیڑھ سو کے قریب گردوں اور 50 کے قریب جگر کی پیوند کاری کی جا چکی ہے۔

اس وقت اس ادارے کے پیٹرن انچیف وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں جب کہ سیکرٹری برائے سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیراینڈ میڈیکل ایجوکیشن پنجاب، سیکرٹری برائے فنانس پنجاب، سیکرٹری برائے لا اینڈ پارلیمنٹری افئیرزپنجاب، کے علاوہ بڑے طبی اداروں کے سابق چئیرمین اس کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔  

کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کا سلسلہ جب پنجاب میں شروع ہوا تو پنجاب حکومت اور محکمہ صحت پنجاب نے ایکسپو سینٹر کے ساتھ ساتھ پی کے ایل آئی میں بھی ویکسین سینٹر قائم کیا۔

کمشنر لاہور کا کہنا تھا کہ ’ہمیں لاہور کے ایکسپو سینٹر سے بھی کچھ معلومات ملی ہیں اور ہم انہیں بھی پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایکشن لے لیا ہے اور ہم نے ذمہ داریاں متعین کر دی ہیں۔ ’اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرے گا تو اس کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے گا۔‘

معطل ہونے والے ہیلتھ ورکرز میں ٹیکنیشن، ڈی سی سپروائزر، سینٹری پٹرول افسر، لیڈی سینیٹری پٹرول ورکر کے علاوہ اینٹی ملیریا بیلدار سمیت دیگر سٹاف شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سارے معاملے پر محکمہ برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ترجمان سید حماد رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی کے ایل آئی میں رشوت لے کر ویکسین لگانے والوں کے خلاف ایکشن لے لیا گیا ہے۔ مستقبل میں ہماری مانیٹرنگ مزید سخت کی جا رہی ہے اور سیکرٹری برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ خود ویکسینیشن کے تمام عمل کی نگرانی کریں گے۔‘

ڈپٹی کمشنر آفس لاہور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس سارے معاملے کی چھان بین کررہی ہے۔

’تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو بھی ہدایات جاری کر دی گئیں ہیں کہ وہ ہر ویکسینیشن سینٹر پر موجود ویکسین کی مقدار، ورکرز کا ریکارڈ اور جتنے لوگوں کو ویکسین لگائی جارہی ہے ان کی تفصیلات کو مستقل بنیادوں پر چیک کرتے رہیں۔‘

اس سے قبل بھی مارچ کے آخر میں لاہور کے مزنگ ہسپتال سے کرونا ویکسین ضائع جب کہ سروسز ہسپتال لاہور سے کرونا ویکسین غائب ہونے کی شکایات سامنے آئی تھیں جس پر محکمہ صحت پنجاب نے انکوائری کا حکم دیا تھا۔

پی کے ایل آئی سے معطل ہونے والے ضلعی محکمہ صحت کے 18 ہیلتھ ورکرز کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پی کے ایل آئی کی انتظامیہ سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بات نہیں کی کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان