بیجنگ کے تیانانمن سکوائر پر ہونے والے قتل عام کو 32 برس بیت چکے ہیں۔ چار جون کے اس واقعے کو چین میں ڈھکے چھپے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت میں 1989 کے موسم گرما کے آغاز میں اس دن پیش آنے والے واقعات جدید سیاسی تاریخ میں بدترین خون ریزی کے حوالے سے درج ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب جمہوریت کے حامی طلبہ مظاہرین پر ایک وحشیانہ کریک ڈاؤن کے دوران پیپلز لبریشن آرمی کی دو لاکھ فوجیوں پر مشتمل طاقتور نفری نے سینکڑوں عام شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کیا تھا، جس سے پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
ڈینگ ژاؤپنگ کی حکمران ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ‘ (سی پی سی) نے دارالحکومت میں مارشل لا کے اعلان کے بعد ملک میں چھ ہفتوں سے جاری مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج کو طلب کیا تھا۔
15 اپریل کو اصلاح پسند جماعت کے رہنما ہو یاوابنگ کی ہلاکت کے بعد دس لاکھ سے زیادہ چینی نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کرنے، ریاستی بدعنوانی کے خاتمے، زیادہ شفافیت اور شہری آزادیوں میں اضافے کے مطالبے کے لیے درالحکومت بیجنگ کی پہچان تیانانمن سکوائر پر قبضہ کرلیا تھا۔
تیانانمن سکوائر پر ہونے والے مظاہرے سوویت وزیر اعظم میخائل گورباچوف کے دورے سے قبل چینی حکومت کے لیے شرمندگی کا سبب بن رہے تھے کیوں کہ سوویت رہنما کے دورے کو دنیا بھر میں خصوصی نظر سے دیکھا جا رہا تھا، لہذا دارالحکومت کی سڑکوں سے مظاہرین کو ہٹانے کی فوری ضرورت محسوس کی گئی۔
ابتدائی طور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے عدم تشدد کے طریقوں کو استعمال کرنے کی کوشش کے بعد انہیں یہ دھمکی دی گئی کہ ان کے پاس یہ جگہ چھوڑنے کے لیے ایک گھنٹہ ہے لیکن اس کے محض پانچ منٹ کے بعد ہی چینی فوج کے 27 ویں گروپ کے ارکان نے خودکار رائفلوں سے ہجوم پر فائرنگ شروع کردی۔
قریبی عمارتوں کی چھتوں سے سنائپرز نے مظاہرین پر گولیوں کی برسات کر دی۔ فوجیوں نے زخمیوں کو رائفلوں سے مزید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد بکتر بند گاڑیاں مظاہرین پر چڑھ دوڑیں جنہوں نے انسانی زنجیر بنانے والے طلبہ کو روند ڈالا۔
اس بربریت کے بعد گٹروں میں پانی کی بجائے خون بہہ رہا تھا جب کہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے بلڈوزروں کا استعمال کیا گیا اور زخمیوں کو سائیکل رکشہ میں ہسپتال لے جایا گیا۔
ایک جانب سی پی سی کا اصرار تھا کہ یہ قتل عام ’انقلابی فساد‘ سے بچنے کے لیے ضروری تھا تو دوسری جانب امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے اس تشدد کی مذمت کی اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا کہ وہ اس واقعے کے بعد صدمے میں ہیں۔
چین نے سرکاری طور پر اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 سے کم بتائی جبکہ موقعے پر موجود چینی ریڈ کراس کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد 2،700 کے قریب تھی۔ اُس وقت چین میں برطانیہ کے سفیر سر ایلن ڈونلڈ نے کہا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
2017 میں منظر عام پر لائے گئے ایک سفارتی خط میں تحریر کرتے ہوئے سر ایلن نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد 10،454 ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چینی فوج کے 27 ویں گروپ، جو ان کے بقول 60 فیصد ناخواندہ اور قدیم وحشی جنگجوؤں کی طرح تھے، کو خاص طور پر اس کام کے لیے منتخب کیا گیا تھا کیونکہ وہ بلا سوال و جواب اطاعت کے لیے مشہور تھے۔
حال ہی میں منظر عام پر لائے گئے ایک اور سفارتی خط میں اسی سفارتکار نے ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کو خبردار کیا تھا کہ قتل عام ناگزیر ہو چکا ہے۔ انہوں نے 20 مئی 1989 کو لکھا تھا کہ ’چینی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ خونریزی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔‘
’ٹینک مین‘ کون تھا؟
حالیہ تاریخ میں تیانانمن سکوائر نے ’ٹینک مین‘ کے لیے سب سے شہرت حاصل کی۔ اس سکوائر پر چار ٹینکوں کے سامنے دو شاپنگ بیگز کے ساتھ ساکت کھڑے اس تنہا شخص کی منظر کشی کو کسی بھی مظاہرے یا مزاحمت کے لیے سب سے مشہور تصویر مانا جاتا ہے۔
اس غیر معمولی لمحے کو پانچ غیر ملکی پریس فوٹوگرافروں نے ایک ہوٹل کی بالکونی سے نیچے کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے عکس بند کیا تھا۔
سٹوارٹ فرینکلن کی یہ تصویر ’ٹائم‘ اور ’لائف‘ میگزینز میں اس وقت زینت بنی جب اس فلم رول کو چائے کے ڈبے میں چھپا کر چین سے سمگل کیا گیا تھا۔
1990 میں سال کے ’ورلڈ پریس فوٹو‘ کا ایوارڈ جیتنے والے چارلی کول صرف اس وجہ سے اس تصویر کو باہر لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے کیوں کہ انہوں نے فلم رول کو ٹائلٹ پیپر رول میں چھپا لیا تھا اور اس کے بدلے ایک ڈمی فلم رول چینی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کو ایک اعترافی بیان پر بھی دستخط کرنا پڑے جس میں ان سے زبردستی یہ بیان لیا گیا کہ انہوں نے مارشل لا کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تصاویر بنائی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور فوٹوگرافر سٹورٹ وڈنر کی اس لمحے کی ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے لی گئی تصویر اشاعت کے لیے سب سے زیادہ بھیجی جانے والی تصویر بن گئی۔
’ٹینک مین‘ کی شناخت 19 سالہ آثار قدیمہ کے طالب علم وانگ ویلن کے طور پر کی گئی تھی لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا، یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری جیانگ زیمین کا کہنا ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے بارے میں لاعلم ہیں، لیکن ان کا اصرار ہے کہ انہیں ہلاک نہیں کیا گیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ تائیوان فرار ہوگے تھے۔
’ٹینک مین‘ کی کہانی کو 2013 میں لوسی کرک ووڈ کے ڈرامے ’چمریکا‘ کا موضوع بنایا گیا تھا۔
آج چینی میڈیا میں تیانانمن سکوائر واقعے کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس جگہ پر پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی 29 سال پہلے ہونے والے اس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
تاہم سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’ہلاک ہونے والے، حراست میں یا لاپتہ افراد کا مکمل حساب فراہم کرے۔‘
چینی فنکار بیدیوکاؤ نے بھی اس واقعے کی سالگرہ کے موقع پر ایک سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ہے جس میں انہوں نے پوری دنیا کے نوجوانوں کو اب بھی چین میں موجود آمرانہ حکومت کی مخالفت کے اظہار کے لیے نمایاں مقامات کے سامنے ’ٹینک مین‘ کی طرح کا روپ دھار کر اہم مقامات کے سامنے ان کا پوز بنانے کی ترغیب دی ہے۔
بچوں کے کارٹون کرداروں ’وینی دا پوہ‘ اور ’پیپا پِگ‘ کو تصاویر میں ٹینک مین کی طرح شاپنگ بیگز تھامے ہوئے دکھایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے ان پر پابندی لگا دی۔
© The Independent