اسرائیلی پارلیمان کے ایک نئی اتحادی حکومت کے حق میں ووٹ دینے کے بعد وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کا 12 سالہ تاریخی دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
ماضی میں نتن یاہو کے سابق دائیں بازو اتحادی رہنے والے اور اب سخت حریف نفتالی بینیت کے نئے وزیر اعظم بننے کے بعد اسرائیلی پارلیمان میں خوشی کی لہر دوڑ اٹھی۔ وہ اب ایک متنوع اور نازک اتحادی کی سربراہی کریں گے۔
نتن یاہو اب بھی لیکود پارٹی اور پارلیمان میں حزب اختلاف کے سربراہ ہوں گے۔ تاہم انہیں ایک کرپشن کے مقدمے کا سامنا ہے۔
پارلیمان میں اتوار کو ہونے والا ووٹ نفتالی بینیت نے 60 اور 59 کے انتہائی کم فرق سے جیتا۔ ان کے انتخاب سے ملک میں دو سالہ جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہوا ہے جس دوران اب تک ملک میں چار انتخابات ہو چکے ہیں۔
ووٹنگ کے دوران نتن یاہو خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے اختتام پر وہ اٹھ کر پارلیمان کے چیمبر سے باہر جانے لگے تاہم وہ واپس مڑے اور نفتالی بینیت سے ہاتھ ملایا۔
وائٹ ہاؤس سے اتوار کی رات جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے نفتالی بینیت اور ان کی اتحادی حکومت کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان ’قریبی اور پائیدار تعلقات کے تمام پہلوؤں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔‘
بیان میں صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ’امریکہ سے بڑھ کر اسرائیل کا کوئی دوسرا دوست نہیں‘ اور واشنگٹن کا ’اسرائیلی کی سلامتی کے لیے تعاون اٹل ہے۔‘
اسرائیل کا نیا حکومتی اتحاد گہرے نظریاتی اخلافات رکھنے والی آٹھ پارٹیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی حامی دائیں بازو کی پارٹیوں سے لے کر فلسطینی ریاست کے قیام کی حامی بائیں بازو پارٹیاں اور پہلی بار ایک عرب اسلامی پارٹی راعم بھی شامل ہے۔
نئی حکومت کی طے شدہ شرائط کے تحت اگر یہ اتحاد قائم رہتا ہے تو نفتالی بینیت، جو یامنہ پارٹی کے سربراہ ہیں، وہ پہلے دو سال وزیر اعظم ہوں گے اور ان کے بعد سینٹرسٹ پارٹی یش عاتد کے سربراہ یائر لاپد دو سال کے لیے وزیر اعظم ہوں گے۔
پارلیمان میں ووٹ سے قبل اپنی تقریر میں نفتالی بینیت نے داخلی مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں کے حق میں نہیں۔
اپنے پیشرو نتن یاہو کی محاذ آرائی پر مبنی پالیسی کو قائم رکھنے کا عزم کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اسرائیل ایران کو جوہری ہتھیاروں سے مسلح نہیں ہونے دے گا۔ اسرائیلی ایسے کسی معاہدے میں شامل نہیں ہوگا اور کوئی اقدام لینے کی آزادی قائم رکھے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے غزہ میں حماس تنظیم کو پیغام دیا کہ ’مجھے امید ہے ہمارے جنوب میں جنگ بندی برقرار رہے گی۔ تاہم اگر حماس نے ایک بار پھر اسرائیلی شہریوں کے خلاف تشدد کی راہ اختیار کی تو اسے لوہے کی ویوار کا سامنا کرنا ہوگا۔‘
یائر لاپد نے بھی تقریر کرنی تھی تاہم انہوں نے اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دکھ ہے ان کی 86 سالہ والدہ کو ان کے حریفوں کی جانب سے پارلیمان میں شور شرابہ دیکھنا پڑا۔
نتن یاہو کے کچھ حامیوں نے پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کی تھی اور کچھ کو چیمبر سے باہر بھی نکالا گیا۔
مختصر سی تقریر میں یائر لاپد نے اپنی والدہ سے معافی مانگی اور کہا: ’میں چاہتا تھا کہ وہ اسرائیل میں جمہوری طریقے پر فخر محسوس کریں مگر انہیں اور اسرائیل کے ہر شہری کو آپ کی وجہ سے شرمندگی ہے اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آپ کی جگہ لینے کا وقت کیوں آگیا ہے۔‘
ووٹنگ سے قبل نتن یاہو نے تقریر میں کہا کہ وہ سر اٹھا کر اقتدار چھوڑ رہے ہیں۔
’میں نے دن اور رات ہمارے ملک کے لیے کام کیا ہے۔۔۔ ہم نے اسرائیل کو ایک عالمی طاقت بنا دیا ہے۔‘
اپنی طویل تقریر کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ وہ روز اس ’خطرناک بائیں بازو حکومت کے خلاف لڑیں گے تاکہ اسے گرایا جا سکے۔‘
© The Independent