پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے پروڈیوسر عبدالکریم بلوچ صدر کراچی سے گزرے تو ان کی نگاہ جابجا وہاں موجود نیلام گھروں پر پڑی، جہاں دکاندار بولی لگا کر مختلف اشیا کو نیلام کررہے تھے۔ اسی لمحے انہیں یہ خیال آیا کہ کیوں ناں ٹی وی پر ایسا شو کیا جائے، جس میں مختلف سوالات کے جواب میں چیزیں دی جائیں۔
ذکر ہو رہا ہے 1975 کے اوائل کا، جب عبدالکریم بلوچ کو اس ٹی وی شو کی میزبانی کے لیے کسی اور کا نہیں صرف اور صرف طارق عزیز کا خیال آیا۔ وہی ہمہ صفت طارق عزیز جنہوں نے ٹی وی کی نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوا، جو شاعر ہی نہیں بلکہ شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ عموماً جب ان کی سنگت سجتی تو گفتگو کے ہر موڑ پر کسی نہ کسی برجستہ شعر سے محفل کو اور خوبصورت بنا دیتے۔ یہی نہیں وہ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے۔
عبدالکریم بلوچ نے عارف رانا کو بطور پروڈیوسر اس پروگرام کے لیے منتخب کیا، طارق عزیز نے تو خوشی خوشی اس شو کے لیے رضامندی ظاہر کی، جس کے بعد عارف رانا اور طارق عزیز نے اس شو کو باقاعدہ ڈیزائن کیا، جسے ’نیلام گھر‘ کے نام سے پیش کیا جانا تھا اور پھر چار نومبر 1975 کو اس سلسلے کا پہلا پروگرام نشر کیا گیا تو اس نے ابتدا سے ہی مقبولیت حاصل کرلی۔ کم و بیش کئی برسوں تک یہ معلوماتی انعامی شو نشر ہوتا رہا، جس میں مختلف سوالات کے جواب پر قیمتی انعامات دیے جاتے۔ یہی نہیں اس شو کے بیشتر سیگمنٹس پر دور حاضر کے کئی چینلز پر باقاعدہ پروگرام بھی نشر ہوئے۔ 1997 میں اس شو کو ’طارق عزیز شو‘ کا نام دیا گیا اور پھر 2002 میں ’بزم طارق‘ کا۔
طارق عزیز منفرد اور اچھوتے انداز میں میزبانی کرتے اور شو کے اختتام پر ان کا مخصوص لہجے میں ’پاکستان زندہ باد‘ کہنا تو خاصی مقبولیت حاصل کرگیا۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے طارق عزیز کا کہنا تھا کہ اُن کے انگ انگ میں پاکستان سے محبت رچی بسی تھی۔ والد عبدل عزیزنے 1936میں نام کے ساتھ ’پاکستانی‘ کا اضافہ کیا حالانکہ اس وقت صرف پاکستان کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔ وطن سے محبت کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ طارق عزیز نے تو وفات کے بعد اپنی تمام تر جائیداد تک پاکستان کے نام کردی۔
طارق عزیز کا کہنا تھا کہ شو کے آغاز میں ’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں‘ کہنے کے پیچھے بھی ایک داستان تھی۔ ان کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں خطوط آتے اور انہی میں سے ایک خط بصارت سے محروم ایک پرستار نے لکھا، جس نے شکوہ کیا کہ شو میں ان جیسوں کو مخاطب نہیں کیا جاسکتا۔ تبھی طارق عزیز نے ’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں‘ کا اضافہ کیا۔ طارق عزیز نے کم و بیش 40 سال تک اس انعامی ٹی وی شو کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا۔
طارق عزیز کا تعارف صرف یہی نہیں کہ وہ ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر اور ’نیلام گھر‘ کے میزبان تھے بلکہ وہ اس دشت کی سیاحی میں سفر کرنے سے پہلے پاکستانی فلموں میں بھی قسمت آزما چکے تھے۔ انہوں نے 1964میں ’خاموش رہو‘ سے فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
ہدایتکار شباب کیرانوی کی فلم ’انسانیت‘ کے ذریعے انہوں نے فلمی حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، جس کے بعد وہ کسی نہ کسی فلم میں کبھی وکیل، کبھی دوست، کبھی نواب صاحب، تو کبھی جج یا پھر کسی اور متاثر کن کردار میں جلوہ گر ہوتے رہے۔ ’نیلام گھر‘ کے آغاز سے قبل وہ کم و بیش 30 فلموں میں منجھی ہوئی اداکاری دکھا کر خود کو تسلیم کرا چکے تھے۔ ان میں سے ایک فلم ’سال گرہ‘ کو بھلا کیسے ذہنوں سے فراموش کیا جاسکتا ہے، جس میں طارق عزیز نے جج کا کردار ادا کیا جبکہ اس مووی میں وحید مراد کے بچپن کا کردار کسی اور نہیں آصف علی زرداری نے ادا کیا تھا۔ فلموں میں بلند مقام بنانے سے قبل طارق عزیز ریڈیو پاکستان کے مختلف پروگراموں اور ڈراموں میں بھی صدا کاری دکھا چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طارق عزیز نے فن کی دنیا کا روشن چمکتا دمکتا ستارہ بننے کے لیے ایک طویل سفر طے کیا تھا۔ کئی نشیب و فراز دیکھے تھے۔ کٹھن اور دشوار زندگی کے پل بھی جھیلے۔ فٹ پاتھوں پر سو کر زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کی کوشش کرتے۔ ریڈیو پاکستان کے چکر لگاتے اور پھر ایک دن ان کی قسمت کا دروازہ کچھ ایسے کھلا کہ رضی ترمذی نے ان کا آڈیشن لیا اور امتیاز علی تاج کی ’انارکلی‘ کا پیراگراف پڑھنے کا حکم ملا، جسے طارق عزیز نے اپنی مخصوص آواز میں کچھ ایسے جذبات اور تاثرات کے ساتھ پیش کیا کہ انہیں ریڈیو پر ایک ڈراما تو ملا، لیکن اس میں ان کا کردار نوکر کا تھا۔ دو تین مکالمات تھے، جن کی پر اثرادائیگی کرتے ہوئے طارق عزیز نے آنے والے دنوں کے لیے روشن مستقبل کو گلے لگایا۔
طارق عزیز نے صرف ریڈیو، فلم اور ٹی وی تک اپنے آپ کو محدود نہیں کیا، بلکہ تھیٹر کے ذریعے بھی اپنی قابلیت اور اہلیت کو ثابت کر دکھایا۔
یہاں تک کہ انہوں نے فلم سازی کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ 1975میں ’ساجن رنگ رنگیلا‘ تخلیق کی۔ بدقسمتی سے یہ فلم کامیابی سے محروم رہی۔ البتہ اس فلم میں ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’کانٹوں پے چلتی ہوئی ترے گاؤں میں‘ آج تک شہرت رکھتا ہے۔ فلمی دنیا سے بہت جلد بے زار ہوگئے۔ طارق عزیز کے مطابق وہ سماجی اور گھریلو فلموں میں طبع آزمائی کے خواہش مند تھے لیکن گنڈسا کلچر آنے کے بعد از خود انہوں نے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ طارق عزیز کی آخری فلم 1988میں ریلیز ہونے والی اقبال کاشمیری کی ’ماں بنی دلہن‘ تھی۔
طارق عزیز کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ پہلے فنکار ہیں، جو انتخابات جیت کر رکن قومی اسمبلی بنے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1997کے انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر لاہور سے انتخابات میں حصہ لیا اور 50 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے۔ ان کے مقابل تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان تھے۔
علم دوست طارق عزیز پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے سپریم کورٹ پر ہجوم کے ساتھ حملہ کیا لیکن طارق عزیز کا کہنا تھا کہ وہ جلوس کی شکل میں سپریم کورٹ گئے ضرور تھے لیکن حملے میں کسی صورت شریک نہیں تھے۔ بہرحال انہیں اس پر سزا کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ طارق عزیز کا سیاسی سفر پیپلز پارٹی سے شروع ہوا تھا، پھر ن لیگ اور اس کے بعد مشرف دور میں وہ قاف لیگ میں بھی شامل رہے۔
طارق عزیز نے ٹی وی پر صرف نیلام گھر ہی نہیں بلکہ بیشتر پروگراموں کی میزبانی کی۔ بالخصوص ملک میں ہونے والے ہر انتخابات کی نشریات میں انہیں مدعو کیا جاتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’جیوے پاکستان‘ نامی پروگرام کی میزبانی کی۔ جنوری 1984سے نشر ہونے والے اس ہفتہ وار پروگرام میں پاکستان کی منفرد اشیا، شخصیات اور مقام کو نمایاں کیا جاتا، جس کے پروڈیوسر تاجدار عادل تھے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ طارق عزیز کو ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے، اور موقع محل کی مناسبت سے وہ ان کا اظہار بھی کرتے۔ شعر و شاعری کے اسی شغف کی بنا پر انہوں نے پنجابی زبان میں اپنا کلام ’ہم زاد دا غم‘ بھی پیش کیا۔ جبکہ ان کیتین اور تصنیفات آچکی ہیں۔ 1992میں حکومت پاکستان نے تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔
ٹی وی سے فرصت ملتی تو مقامی اخبار میں کالم بھی لکھتے۔ گفتگو کو خوبصورت لفظوں کی چاشنی سے مہکانے والے طارق عزیز 17جون 2020 کو پرستاروں کو اداس چھوڑ کر اس جہاں سے کوچ کرگئے۔