دریائی پانی کی تقسیم اور اس کے استعمال کا جھگڑا صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی سر دردی کا باعث نہیں، دنیا کے کئی ممالک ایسے مسائل سے دو چار ہیں۔
ان دنوں ایتھوپیا میں دریائے نیل کا رخ موڑ کر ایک ہائیڈل ڈیم کی تعمیر پر مصر اور سوڈان نے شور مچا رکھا ہے۔ ایتھوپیا، نیل کا منبع ہے اور یہ دریا صدیوں سے راونڈا، تنزانیہ، یوگینڈا، جنوبی سوڈان، سوڈان اور مصر میں بہہ رہا ہے۔
دنیا کے اس طویل ترین دریا کے کنارے، انسانی تہذیب کے امین ہیں اور انسانی خون سے لہو لہان بھی۔ نامعلوم کتنی جنگیں اس کے پانیوں پر بالادستی کے لیے لڑی گئیں۔ مصر نے اس پر سب سے بڑا ڈیم بنا رکھا ہے مگر اب وہ ایتھوپیا کے حق کو چیلنج کر رہا ہے۔
یورپ میں دریائے ڈینیوب کئی ملکوں کی سرحدیں بنانے اور بگاڑنے کا باعث بنتا رہا۔ جرمنی کے سرسبز وشاداب جنگل بلیک فارسٹ سے دو چھوٹی چھوٹی ندیاں نکلتی ہیں، جو بویریا میں ڈینیوب کے نام سے ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
جرمنی سے یہ دریا آسٹریا کا رخ کرتا ہے اور ویانا کو چھوتا ہوا چیکو سلوواکیہ اور ہنگری کی سرحد بناتا ہے۔ یوگوسلاویہ میں اس کا پاٹ وسیع ہو جاتا ہے اور یہ رومانیہ کی سرحد کے ساتھ بہنے لگتا ہے۔ بلغاریہ کے بعد یہ دریا دلدل کی صورت میں پورٹ سعید پر بلیک سی کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ رومانوی تذکرہ پڑھتے ہوئے آپ کو یاد نہیں رہا ہو گا کہ ڈینیوب کتنے یورپی ملکوں سے گزرتا ہے؟ ان ممالک نے صدیوں کے جھگڑوں کے بعد بالآخر ایک ساتھ جینا کیسے سیکھ لیا ہے؟
دنیا نے ایسے تنازعات کا منصفانہ اور باعزت حل تلاش کر لیا جبکہ مصر اور ایتھوپیا کا ڈیم پر تنازع ایک کھلی جنگ کی سمت بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
قاہرہ سمجھتا ہے کہ 30 کروڑ افراد کی زندگی دریائے نیل پر منحصر ہے اور مصر میں 95 فیصد آبادی اسی دریا کے کنارے آباد ہے۔ ایتھوپیا نے اس دریائے کے پانی کا ذخیرہ کچھ عرصہ قبل کرنا شروع کیا۔
یہ ذخیرہ پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والے ایسے ڈیم منصوبے کا حصہ ہے جو 65 لاکھ افراد کو غربت کے اندھیروں سے نکالنے میں مدد دے گا۔ لیکن مصر کے جو دریا کے نچلی طرف واقع ہے نزدیک پانی کی سطح میں کمی اس کے وجود کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔
مصر میں افریقہ کے صحرائی خطے سے آ کر بسنے والے پناہ گزینوں کو ڈیم کے تنازع کی وجہ سے مصر کی سڑکوں پر نفرت کا سامنا ہے۔ یہ لوگ ایتھوپیا کی حکومت کے ظلم اور ناانصافی سے بھاگ کر مصر آئے تھے، لیکن یہاں وہ ایتھوپیائی ہونے کی وجہ سے تکلیف میں ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق ایتھوپیائی یا وہاں کے سمجھے جانے والے افراد کے خلاف مصر میں نفرت انگیز بیانیہ، ہراساں کرنے کے واقعات اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ نسلی تعصب میں اضافے نے آسان ترین چیزیں بھی مشکل بنا دی ہیں۔
آن لائن بھی مصر اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے پر طنز کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹک ٹاک استعمال کرنے والے ایتھوپیائی افراد کہتے ہیں کہ مصر دریائے نیل سے مکمل طور پر کٹ جائے گا۔ مصری افراد اس کے جواب میں اپنے ملک کی عسکری صلاحیت کی شیخی بگھارتے ہیں۔
یہ آن لائن جھگڑے حقیقی زندگی میں بھی تناؤ بڑھا رہے ہیں۔ ایسی ویڈیوز سے لوگوں میں غصہ بڑھتا ہے۔ ان ویڈیوز میں ایسے افراد پیش کیے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ مصر کو پانی حاصل کرنے سے روک سکتے ہیں۔
مصر پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ قاہرہ اپنے ہمسایوں کو دبانے اور دریائے نیل پر کنڑول قائم کرنے کے لیے طاقت استعمال کر رہا ہے جبکہ ایتھوپیا پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈیم کے بارے میں ایک قانونی معاہدے کے بغیر وہ اپنے ہی ہمسایوں کو تباہ کرنے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
سوڈان، ایتھوپیا اور مصر اب تک ایک معاہدے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں لیکن پانی کے ذخیرے میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔ مصر میں رہنے والے مہاجرین کہتے ہیں کہ ان کے خلاف وہاں پنپنے والا غصہ، غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر مصر پیاسا رہ گیا تو ان کی پیاس بھی نہیں بجھے گی۔
کئی لوگ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر یہ تنازع ختم نہیں ہوتا تو اس میں الجھے ہوئے ملکوں کے درمیان جنگ بھی ہو سکتی ہے۔
2013 میں یہ اطلاعات بھی تھیں کہ مصر کے سیاست دانوں کی ایک ریکارڈنگ بھی موجود ہے جس میں وہ ڈیم بنانے کی صورت میں ایتھوپیا کے خلاف مختلف جارحانہ اقدامات کی تجاویز دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ صدر السیسی کے حوالے سے بھی سننے میں آیا تھا کہ انہوں نے دریائے نیل کے پانیوں پر مصر کے حق کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا کہا تھا۔
ایتھوپیا کے وزیرِ اعظم ابی احمد نے ارکان پارلیمان سے کہا تھا کہ ’کوئی طاقت‘ ایتھوپیا کو یہ ڈیم بنانے سے نہیں روک سکتی۔
پچھلے ہی سال بین الاقوامی تنازعات پر نظر رکھنے والی تنظیم انٹرنیشنل کرائسِز گروپ نے خبردار کیا تھا کہ ’ڈیم پر جاری یہ تنازع ملکوں کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے میں امریکہ کے شامل ہو جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورت حال کتنی گھمبیر ہے اور اسے سلجھانا کتنا ضروری ہو گیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے مدد کی بات اس وقت ہوئی جب صدر السیسی نے صدر ٹرمپ سے درخواست کی وہ بات چیت کو آگے بڑھانے میں مدد کریں۔ شروع میں ایتھوپیا نے اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا۔
امریکہ کے اپنے دو اتحادی ممالک کے درمیان جنگ سے یہ معاملہ عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر سکتا ہے کیونکہ اس سے کروڑوں لوگوں کی زندگی داؤ پہ لگ سکتی ہے۔ اس قسم کی جنگ سے نہرِ سویز اور ’ہارن آف افریقہ‘ کے سمندری راستوں سے ہونے والی عالمی تجارت کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی؟
ادھر بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین بھی دریائی پانی کا جھگڑا گرم رہتا ہے۔ خود بھارت کے اندر مختلف دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کے تنازعات بھی چلتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان اور بھارت یا پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان دریائی پانی کی آویزش پر کسی کو اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔
سندھ طاس کے معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھارت، پاکستان کو بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے ’اٹوٹ انگ کشمیر‘ کی گردان کیے چلے جا رہا ہے۔
اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ دشمن کا سلوک اپنی جگہ پر مگر صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان جو اپنی محرومیوں کا رونا روتے نہیں تھکتے، ان تینوں صوبوں نے وفاقیت کی روح کو کچلتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کو شعار بنا رکھا ہے محض اس بنا پر کہ اس کا محل وقوع پنجاب ہے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ تینوں صوبے پنجاب کے وزیر اعظم، پنجاب کے صدر، پنجاب کے سپیکر اور پنجاب کے آرمی چیف کو کیسے برداشت کر لیتے ہیں؟
جس سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ جمہوری اور ریاستی عمل میں شریک ہیں، اسی جذبے سے کام لیتے ہوئے ان تینوں صوبوں کو ایتھوپیا کے ’گرینڈ رینیسنس ڈیم‘ کی طرز پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اتفاق رائے پیدا کر لینا چاہیے تاکہ پاکستان کو لوڈشیڈنگ اور پانی کی کمی کے عذاب سے نجات دلائی جا سکے۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔