خیبر پختونخوا، ضلع کوہاٹ کینٹ میں گزشتہ اتوار اتوار کی دوپہر کو گھر میں گھس کر جواں سال ارحام گل کو تیزاب کا نشانہ بنایا گیا۔
واقعے کے بعد کوہاٹ سی ایم ایچ میں متاثرہ خاتون ارحام گل کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد پشاور منتقل کر دیا گیا۔
کوہاٹ کینٹ پولیس سٹیشن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف پی پی سی دفعہ 336-بی کے تحت درج ہوچکی ہے، جو کہ کسی تباہ کن مواد سے نقصان پہنچانے کے حوالے سے قانون ہے اور جس کی سزا عمرقید اور کم از کم تیس لاکھ جرمانہ ہے۔
متعلقہ پولیس سٹیشن کے مطابق، واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور ابھی تک پولیس ملزم کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
ارحام گل کی والدہ رضیہ سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے آج 29 جون کی صبح والدہ کے سامنے شک کا اظہار کیا کہ انہیں ایک لڑکی پر شبہ ہے جو ان کے گھر سے تقریباً تین محلے دور رہتی ہیں۔
رضیہ سلطان نے بتایا کہ پولیس کے پاس لکھی گئی ایف آئی آر میں مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے لیکن انہیں شک ہے کہ ان کی بیٹی کے دوست اس جرم میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
’بیٹی کی حالت دیکھ کر میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور امداد کے لیے گلی کی طرف بھاگی۔ ادھر ہی میں نے بیٹی کی متعلقہ دوست کو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے دیکھا۔ میں نے اسے کہا کہ جاکر ارحام پر چادر ڈالے لیکن وہ گھر کے صحن تک بھی نہیں گئی۔‘
رضیہ سلطان کے مطابق، مذکورہ خاتون کا مدد سے لاتعلقی کا اظہار، واقعے کے وقت ان کے دروازے کے پاس موجود ہونا باوجود اس کے کہ ان کا گھر وہاں سے کافی دور تھا، ان کے شک کا باعث بن رہا ہے۔
متاثرہ لڑکی کی والدہ نے بتایا کہ بظاہر ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور ان کا بنیادی تعلق فیصل آباد سے ہے۔
’میں کینٹ میں گھروں میں کام کرتی ہوں جب کہ میرے شوہر ایک فیکٹری ملازم ہیں۔ارحام کو ہم نے صرف پڑھائی پر لگایا تھا اور وہ ایف ایس سی کی طالبہ ہے۔ ‘
رضیہ بی بی نے بتایا کہ ان کی بیٹی کاآپریشن ہورہا ہے لہذا وہ جس وقت ہوش میں آئے گی تو وہ پولیس کے سامنے بیٹی کابیان ریکارڈ کروائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ تیزاب کی وجہ سے نہ صرف ان کی بیٹی کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی ہے بلکہ ڈاکٹروں نے ان کو بتایا ہے کہ ارحام کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔
جب رضیہ سلطان سے انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ انہیں گھر کے اندر کسی کے آنےکی خبر کیوں کر نہ ہوسکی اور کیا ان کے گھر کی دیوار پھلانگنا اتنا آسان تھا، تو انہوں نے کہا’ہمارے علاقے میں اکثر گھروں کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ ائیر کولر کا شور بھی تھا اس لیے نہ کسی کے آنے کی خبر ہوئی نہ ہی کسی کو بھاگتے دیکھا۔‘
دوسری جانب 23 جون کو پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتی، قتل، گھریلو تشدد، جبری شادی اور تیزاب پھینکنے کے واقعات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق، 2020 میں پاکستان میں پینسٹھ تیزاب پھینکنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ انگریزی ڈان اخبار میں ایک وکیل ای۔ این بندیال کی جانب سے لکھی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 1994 سے لے کر 2018 تک نوہزار تین سو چالیس افراد پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے سخت قوانین موجود ہیں لیکن اکثر اوقات یہ واقعات قانون اور میڈیا کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔