الناس علیٰ دینِ ملوکہم (لوگ اپنے بادشاہوں کی راہ چلتے ہیں)۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، چنانچہ میں فطری طور پر صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو گیا۔ میری دیکھا دیکھی ماتحت افسران اور جملہ اہلکار بھی نماز کی پابندی کرنے لگے۔
ضلع کچہری کی مسجد آباد ہوگئی۔ متعلقہ پٹواری سرکل نے میرے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے مسجد کی خوب تزئین و آرائش بھی کرا دی تھی۔
مولانا صاحب جب خطبہِ جمعہ کے دوران میری عادلانہ طبیعت اور سادگی کی تعریفیں کرتے تو میرا سر جھک جھک جاتا اور آنسو بہہ نکلتے۔ میں نے امپورٹڈ کپڑے کی نصف درجن شیروانیاں سلوا لی تھیں جو میں نمازِ جمعہ کے علاوہ مختلف تقریبات میں پہن کرجاتا۔
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی میرا مزاج مزید عاجزانہ ہو جاتا۔ میں دفتر میں مصلیٰ بچھا لیتا اور ایرے غیرے سائلین کا داخلہ بند کرا دیتا تاکہ خشوع وخضوع میں خلل نہ پڑے۔
ایک دن اعلیٰ سطح سے حکم آیا کہ مقامی علمائے کرام، مشائخ عظام اور معززین کے اعزاز میں شاندار افطار ڈنر دیا جائے، جس میں ایک وفاقی وزیر بھی شرکت فرمائیں گے۔ میں نے فوراً انتظامیہ کی میٹنگ طلب کرلی۔
حسب روایت تحصیل دار صاحب نے سارا انتظام اپنے ذمے لے لیا۔ انہوں نے اُسی دن سٹی سرکلز کے پٹواریوں سے میٹنگ کی اور انتظامات کو آخری شکل بھی دے دی۔
رازدار درون میخانہ جانتے ہیں کہ ایک ڈپٹی کمشنر کی ’ڈپٹی کمشنری‘ کا انحصار محکمہ مال پر ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان پٹواریوں کی انتظامی صلاحیتوں اور مالی وسائل سے بہت متاثر ہوں۔
وی وی آئی پی شکار کا انتظام کرنا ہو تو یہ حاضر، سرکاری جلسے کے لیے حاضرین اکٹھے کرنے ہوں تو یہ بسیں بھرلاتے ہیں، صدر کے سیلابی فنڈ میں رقوم کا ہدف پورا کرنا ہو تو یہ پیچھے نہیں رہتے، ریفرنڈم میں بیلٹ باکس بھرنے ہوں تو ان کا ثانی نہیں، سرکاری دعوت کا انتظام کرنا ہو تو من و سلویٰ حاضر کر دیتے ہیں۔
سستا رمضان بازار لگانا ہو، ریسٹ ہاؤس یا افسران کا کچن چلانا ہو تو بھی یہ سرخرو۔ مزے کی بات یہ کہ ایسے کاموں میں سرکاری خزانے سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ نہ فنڈز، نہ آڈٹ۔
میں ذاتی طور پر سادگی کا قائل ہوں مگر ان بھلے مانسوں نے افطار پارٹی کے لیے پر تکلف اشیائے خوردونوش برائے افطار کے علاوہ سیخ کباب، چکن تکہ، مٹن تکہ، بیف تکہ، چکن روسٹ، شامی کباب، مٹن پلاؤ، مٹن قورمہ، چکن جلفریزی، روغنی نان، کھیر اور حلوے جیسی درجن بھر ڈشوں کا انتظام کر ڈالا۔
میں اس اصراف پر معترض ہوا توایک مجسٹریٹ صاحب کہنے لگے: ’سر پٹواریوں کو روزے داروں کی خدمت کر کے ثواب دارین کمانے دیجیے اور ویسے بھی اس اسلامی دور میں ایسے ہی نیک اعمال کی بدولت آپ کی اے سی آر کو چار چاند لگیں گے۔‘
بھلے مانسوں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس کے وسیع لان کو دلہن کی طرح سجا دیا۔ افطار سے قبل علمائے کرام اور وزیر محترم نے ماہ صیام کی برکتوں اور روزے کی فضیلت پر ایمان افروز تقاریر کیں۔ انہوں نے پیارے نبیؐ کی سادگی سے فقط نمک یا کھجور سے روزہ افطار کرنے کی اس پُراثر انداز سے مثالیں دیں کہ ماحول پر وجد آفریں کیفیت طاری ہو گئی۔
جذبہ ایمانی سے سرشار یہ تقاریر اور فور سٹار کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں مہمانان گرامی کو مست کیے دے رہی تھیں۔ قبل ازیں میں نے اپنے خطبہِ استقبالیہ میں کہا کہ رمضان المبارک مفلسوں کی کفالت اور بھوکوں کو کھانا کھلا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔
اس موقع پر پولیس اہلکاروں نے ریسٹ ہاؤس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ میرے حکم پر سکیورٹی کا سخت بندوبست کیا گیا تاکہ کوئی فقیر فقرا یا غریب غربا افطار پارٹی کے قریب بھی نہ بھٹکنے پائیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ یہ لالچی لوگ ایسی روحانی محافل پر بن بلائے مہمانوں کی طرح یلغار کرکے رمضان المبارک کا تقدس مجروح کرتے ہیں اور اس مبارک مہینے کے حوالے سے اہل ایمان کو جذباتی طور پر بلیک میل کرکے اپنے گندے ہاتھوں سے کھانے پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔
تاہم فول پروف سکیورٹی انتظامات کی بنا پر یہ مقدس محفل ایسے بے وضو لوگوں سے پاک و صاف رہ کر اختتام پذیر ہوئی۔ معزز مہمانوں نے خوب تسلی سے روزہ افطار کیا اور باجماعت نمازکے بعد پورے اطمینان سے انواع و اقسام کے کھانوں سے فیضیاب ہو کر خدا کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور پھر میرے انتظامات اور کھانوں کی تعریفیں کرتے رخصت ہو گئے۔
جیسا کہ میں اعتراف کر چکا ہوں، رمضان میں میرا دل اور بھی نرم ہو جاتا تھا۔ اس سے اگلے دن میں دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے لگا تو میری نظر ایک مفلوک الحال عورت اور اس کے تین، چار ننگ دھڑنگ بچوں پر پڑی جو میرے آگے فریادی انداز میں ہاتھ جوڑے کھڑے تھے، جبکہ سکیورٹی اہلکار انہیں ٹھڈے مار کر بھگانے کی سعی کر رہے تھے۔
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے سکیورٹی اہلکاروں کو ڈانٹ دیا اور فریادیوں کو قریب بلا لیا۔ عورت کی آنکھوں میں غم کا سمندر تھا۔ اس نے رو رو کر واویلا کیا کہ اس کا مزدور پیشہ خاوند ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا ہے اور اب کرایہ ادا نہ کر سکنے کی پاداش میں مالک مکان اس کے بچوں کے سر سے چھت چھیننے کے درپے ہے۔ نیز قرض خواہوں نے بھی اس غریب کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بدقسمت خاندان دو دن سے بھوکا تھا اور اوپر سے چھوٹا بچہ بخار میں تپ بھی رہا تھا۔
ان کی حالت زار دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ڈسٹرکٹ ناظر کو طلب کیا اور کسی بھی فنڈ کی مد سے اس عورت کی مبلغ دو ہزار روپے نقد فوری مدد کرنے کا حکم دے کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
ناظر صاحب نے میرے حکم کی بابت ڈسٹرکٹ چیئرمین زکوٰۃ و عشر سے بات کی، جنہوں نے بغیر وقت ضائع کیے ضابطے کی کارروائی شروع کر دی۔ انہوں نے اس بد اختر خاندان کی غربت کی تصدیق کے لیے متعلقہ زکوٰۃ کمیٹی، نمبردار، پٹواری، گرداور، تحصیلدار اور اے سی کی مفصل رپورٹیں منگوا کر ملاحظہ کیں۔
تین ماہ کی ضابطے کی کارروائی کے بعد جب امدادی چیک تیار ہوا تو ناظر اور چیئرمین ہمراہ مظلوم عورت اور اخباری فوٹو گرافر میرے دفتر میں آ دھمکے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں یہ چیک اپنے دستِ مبارک سے اس غریب کو عطا کروں۔
میں اپنی نیکیوں کی تشہیر کے سخت خلاف ہوں، سو میں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تو وہ ہوں کہ ایک ہاتھ سے دیتا ہوں تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی۔
چیئرمین صاحب بولے: ’سر، آپ کی سخاوت کی حدود بے کنار ہیں اور دوسرا ہاتھ تو کیا، ایک دنیا آپ کی دریا دلی کی معترف ہے۔‘ اب ماتحتوں سے لمبی بحثیں کون کرتا، میں گھر سے شیروانی منگوا کر فوٹو بنوانے کے لیے تیار ہو گیا۔
اگرچہ عورت کا بیمار بچہ ضابطے کی کارروائی کے دوران فوت ہو گیا تھا اور ظالموں نے اس کے سرسے چھت بھی چھین لی تھی، مگر جب میں نے اسے چیک دیا تو سارے غم بھول کر خوشی سے اس کے آنسو تھمتے ہی نہیں تھے۔
بے چاری بڑی سادہ لوح تھی۔ وہ چیک کو نوٹ سمجھی اور اسے واپس میری طرف بڑھا کر بولی: ’صاحب! مجھے اس کا بھان دے دو، میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے۔‘
میں نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے پچاس روپے کا ایک مزید نوٹ دیتے ہوئے کہا، ’یہ لو کرایہ اور بچوں کے لیے فروٹ بھی لیتی جانا۔‘
دوسرے دن اخبارات میں اس سادہ مگر پروقار تقریب کی تصویریں شائع ہوئیں تو مجھے مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ مجھ پر رقت طاری ہو گئی۔ الناس علیٰ دینِ ملوکہم۔
نوٹ: یہ فرضی تحریر ہے اور اس میں پیش کردہ واقعات مصنف کی تخیل کی پیداوار ہیں۔