’میری آنکھیں ہر وقت پھولوں کو ڈھونڈتی ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں سے بھی اگر سب سے زیادہ کوئی چیز میرے دماغ میں صاف یاد ہے تو وہ پھول ہیں۔ میں ہمیشہ رنگوں کی طرف کشش محسوس کرتی تھی۔ گھر کے باغ میں کھیلتے ہوئے میرے آس پاس جو بھی موسمی پودے ہوا کرتے، مجھے یاد ہے میں ان کے درمیان کھیلتے ہوئے بہت اچھا محسوس کرتی تھی۔ میرے خیال میں یہ مصوری میری قسمت میں شروع سے تھی۔ اسی لیے مجھے یہ سب رنگ، پھول، خوبصورتی، گلاب، للی، پھولوں کی جھاڑیاں، یہ سب آج بھی اتنا ہی پسند ہے جتنا بچپن میں ہوتا تھا۔‘
آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ اگر میں کسی بازار جاؤں، کسی شاپنگ مال میں گھوم رہی ہوں، تب بھی میرا دماغ پھولوں کی دکانیں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ میرے نزدیک پھول اظہار کا ایک مکمل ذریعہ ہیں۔ آپ پھولوں کو ختم نہیں کر سکتے، وہ دوبارہ اگ آئیں گے، یہی طاقت فطرت میں ہے، یہی اصول زندگی کا ہے۔ آواز دبائی نہیں جا سکتی، سچائی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ تو پھول اور مصوری میری زندگی کی دو سب سے بڑی حقیقتیں ہیں۔
میں نے کئی سال تک باقاعدہ لندن میں مصوری سیکھی ہے۔ وہاں گیلریوں میں پرانے عظیم مصوروں کی تصویریں میں گھنٹوں کھڑے ہوئے دیکھتی رہتی تھی۔ آرٹ میوزیمز میں مجسموں کے سامنے کینوس رکھ کر ان کی تصویریں بناتی اور پریکٹس کیا کرتی۔ میری خوش قسمتی یہ ہے کہ اس سب میں میرا خاندان میرے ساتھ تھا۔ وہ لوگ ہمیشہ میری ہمت بڑھاتے تھے اور کبھی مجھے روکتے نہیں تھے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر کے میوزیم گھوم کر میں نے دنیا کی اعلی ترین تصویروں کو اپنے سامنے دیکھا ہے، انہیں محسوس کیا ہے۔ قدیم یورپی اور فرانسیسی مصوروں کی تصویریں ہمیشہ مجھے دل کے بہت قریب لگی ہیں۔ موجودہ دور کے بڑے مصوروں میں مجھے ڈیوڈ ہاکنی، انزیلم کیفر اور کرٹ جیکسن بہت پسند ہیں۔
جارجیا اوکیف ایک امریکن مصور تھیں۔ میرا کام ان سے ہرگز متاثر نہیں لیکن جیسے بڑے، خوبصورت، زندگی سے بھرپور اور دہکتے ہوئے پھول انہوں نے بنائے ہیں ویسے شاید ہی کبھی کسی نے بنائے ہوں۔ کینوس پر پھول بنانے کا فن انہوں نے ایک نئی بلندی تک پہنچایا ہے۔ ان کے فن میں اس قدر تنوع ہے کہ بعض دفعہ ایک ہی وقت میں ان کی تصویر دیکھنے والے دو آدمی اس کے بارے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں، ایک اس میں جسم اور جنس ڈھونڈ سکتا ہے جب کہ دوسرے کو وہ سراسر روحانیات نظر آتی ہیں۔
اگر یہ بات کی جائے کہ مجھ پر کن مصوروں کا رنگ زیادہ ہے تو شاید میں ہمیشہ ایشیائی مصوری سے متاثر رہی ہوں۔ جیسے جاپانی مصوری کی ایک شاخ ہے جسے مانگا کہتے ہیں، تو ہاکوزے اور ہیروشگی ایسے دو مصور ہیں جن کا مجھ پہ بہت اثر رہا ہے، یا کہا جا سکتا ہے کہ چین کی معاصر مصوری مجھے بہت پسند ہے، تو بس یہ سب چیزیں مل کر آپ کو متاثر کرتی ہیں اور آپ اپنے کسی خاص رنگ میں پینٹ کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ آرٹ باقاعدہ ایک سرمایہ کاری ہے؟ ایسی انویسٹمنٹ جس کا فائدہ بھی یقینی ہوتا ہے۔ بینسکی، ڈیوڈ ہاکنی، جینی سیول کی تصویریں کروڑوں میں بکتی ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں دیکھیں تو ابھی لندن میں صادقین کی تصویر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ میں بکی ہے۔ وہ بکی بھی یونی کارن گیلری سے ہی تھی (یونی کارن کا ذکر آگے آتا ہے)۔ اسی طرح ہندوستان کے ایم ایف حسین ہیں، ایس ایچ رضا، طیب مہتہ، جمینی رائے، راجہ روی ورما، امرتا شیر گل اور کئی دوسرے مصور ہین جن کی تصویریں بلامبالغہ کروڑوں میں بکتی ہیں۔ جب تصویر کسی ماسٹر پینٹر کی ہو تو ویسے بھی اس کے دام کبھی کم نہیں ہوتے۔ ان کا فن وقت کے ساتھ ساتھ مزید قیمتی ہوتا چلا جاتا ہے، تصویریں کم ہوتی ہیں، گاہک زیادہ ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے یہاں استاد اللہ بخش تھے، چغتائی تھے، حاجی شریف، شاکر علی، زبیدہ آغا، بشیر مرزا، احمد پرویز، گل جی اور چند دوسرے مصور تھے۔ بندہ تصویریں بہرحال خریدتا اپنے شوق سے ہے لیکن اچھی تصویر ایک تو کبھی آپ کو نقصان نہیں دیتی اور دوسرے پھر اس کی مستقل ایک مارکیٹ بنی رہتی ہے جس نے کبھی بھی نقصان نہیں دینا ہوتا۔ پاکستانی آرٹ مارکیٹ ویسے بھی اس وقت ابتدائی دور میں ہے تو یہاں تصویروں کی قیمتیں سنگاپور، ہانگ کانگ، انڈیا، یورپ یا امریکی ممالک کی نسبت کم ہیں۔ اگر اس وقت آپ مشہور پاکستانی مصوروں کی تصویریں خریدتے ہیں تو مستقبل میں یقینی طور پہ ان کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہوں گی۔
میری ماں نے ہم سب کی تربیت بہت چھوٹی عمر سے ہی اس طرح کی کہ ہمیں آرٹس میں دلچسپی پیدا ہوتی چلی گئی۔ وہ ہمیں دنیا بھر کے آرٹ میوزیمز میں گھمایا کرتیں، ہمیں مصوری کے متعلق خوبصورت کتابیں لا کر دیا کرتیں، پھر ان کے حلقہ احباب میں بھی زیادہ تر لوگ مصور، تصویروں کے نقاد یا اسی فن سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے۔ پھر آخر کار انہوں نے یہ گیلری بنا لی جسے ہم آپ یونی کارن کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ان کی محنت اور مصوری سے محبت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی آرٹ گیلری نے پاکستانی اور بھارتی بڑے بڑے فن کاروں کے شاہ پارے دنیا بھر میں نمائش کیے ہیں۔ میری ماں، سیما نیاز، ان میں سے کئی مصوروں کو ذاتی طور پر بھی جانتی تھیں۔ کچھ ایسے بھی تھے جن سے ان کی ملاقات میری پیدائش سے پہلے کبھی ہوئی ہو گی۔ اس وقت وہ لاہور میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ یا پھر شاید تب ہوئی ہو جب 70 کی دہائی میں شادی کے بعد وہ کراچی شفٹ ہو گئی تھیں۔ وہ ساری عمر فن اور فن کاروں کی خدمت میں لگی رہیں۔ کتنے مصوروں کو انہوں نے مالی طور پر بھی مدد دی۔ میں شروع سے ہی ان سے بہت متاثر ہوں۔ یونی کارن گیلری بھی ان ہی کے دم قدم سے کئی معتبر عجائب گھروں اور دنیا بھر کے نامور اداروں کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز رکھتی ہے۔ '
ثریا کے نام کا صحیح تلفظ ان کے مطابق 'ثورایا' ہے اور یہ ایرانی الااصل نام ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی ثریا کی تصویروں میں ہمیں پاکستانی لینڈ سکیپ کے رنگ بے تحاشہ نظر آتے ہیں۔ ان کا سارا کام بنیادی طور پر اپنے آس پاس کے ماحول سے جڑا نظر آتا ہے۔ ثریا جب اپنی تصاویر دنیا بھر میں دکھاتی ہیں، نمائش کرتی ہیں تو لوگ بہت حیرت زدہ ہو کر دیکھتے ہیں۔ شدت پسندی کے خلاف جنگ سے متاثرایک ملک ہے اور اس کی ایک مسلمان لڑکی آرام سے گھوم رہی ہے، پھولوں کی، لینڈ سکیپ کی تصویریں بنا رہی ہے، لوگوں کو اپنےکام سے متعارف کروا رہی ہے، تو یہ سب پاکستان کا ایک مثبت امیج پیش کرتا ہے۔
ماڈرن آرٹ کی نمائندگی کرنے والی تصویروں میں ثریا کا فن اس وقت عروج پر دکھائی دیتا ہے جب وہ کوئی لینڈ سکیپ بنا رہی ہوں۔ لینڈ سکیپ میں ان کا الگ ایک انداز ہے۔ قریب سے دیکھنے پر بہت پھیلے اور بہتے ہوئے سے رنگ ذرا دور ہونے پر ایسے سمٹتے ہیں کہ ایک نیا منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ثریا کا خیال ہے کہ عام آدمی کو اگر مصوری کی جانب راغب کرنا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے نمائش گاہیں اور میوزیم بنائے جائیں۔ اسی طرح والدین کو چاہیئے کہ اپنے بچوں کو لے کر آرٹ گیلریز جائیں، تصویری نمائشوں میں انہیں گھمائیں، انہیں عجائب گھروں کو دیکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ ان کے دماغ کی نشوونما ایک بہتر انسان کے طور پر ہو سکے۔
ثریا بیس سے زیادہ بین الاقوامی تصویری نمائشیں منعقد کرنے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ چین، ہالینڈ، ابوظہبی، بنگلہ دیش، لندن اور راس الخیمہ سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی ان کی تصاویر کی نمائش ہوتی رہتی۔ ثریا سکندر متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔