انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی شخصیت کو سمجھنا بے حد مشکل ہے۔ ایک تو صبح شام تلقین شاہ بنے رہنا، ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں، لیکن دوسری طرف غیبت اور بہتان طرازی کے گہرے سمندر میں دن رات بہتے چلے جا رہے ہیں۔
پتھروں کی پرستش تو صدیوں پہلے چھوڑ دی مگر شخصیتوں کے بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دی اور اس پسندیدہ شخصیت نے کچھ بھی الٹا سیدھا بول دیا، بس دیوانے اس کے پیچھے چل دیے۔
ہمیں زندگی کی ہر سہولت فوراً چاہیے، بھلے ہم اس کے لائق ہوں یا نہ ہوں۔ انفرادی ترقی سے لے کر ملک کی اجتماعی ترقی ہمیں فوراً چاہیے۔ چاہے ہم اس کے لیے اپنا اپنا فرض ادا کریں یا نہ کریں ہم بطور شہری اپنا کوئی فریضہ انجام نہیں دیتے لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام فرائض ٹھیک سے انجام دیں۔ انکم ٹیکس فائل نہیں کرتے لیکن یورپی ممالک جیسے سوشل بینیفٹس چاہتے ہیں۔ ہم میں سے جس کا جہاں بس چلتا ہے اپنے بھائی یا رشتہ دار کو جاب دلوا دیتے ہیں، لیکن حکمرانوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کا بھرپور خیال کریں گے۔
کاروبار کرتے وقت اپنے فائدے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع کہ وہ کوئی کرپشن نہیں کریں گے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر خوب دُہائیاں دیتے ہیں لیکن میٹر ریڈر کے ساتھ مل کر جس حد تک ممکن ہو خوب بجلی چوری کرتے ہیں۔ منافع خوری کرتے ہیں لیکن دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ منافع خوری نہیں کریں گے۔
نجی محفلوں سے لے کر میڈیا تک یورپ اور امریکہ کو جی بھر کے کوستے ہیں اور انہیں اپنی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہر صبح قطاریں بنا کر انہی ممالک کے سفارت خانوں کے آگے پورا پورا دن ویزے کی درخواستیں دینے کے لیے قطاروں میں نظر آتے ہیں۔ اقلیتوں کو خود کوئی حقوق نہیں دیتے لیکن باہر کے ممالک جاتے ہی اپنے لیے سارے حقوق مانگتے ہیں۔ سیاست دانوں کو جی بھر کے برا بھلا کہتے ہیں لیکن جونہی موقع ملے تو ان کے ساتھ صرف ایک تصویر بنوا کر یا مصافحہ کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔
مکان کی تعمیر میں سریے سے لے کر بجری تک سستی سے سستی ڈلواتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوگا۔ سیمنٹ اور بجری ملاوٹ والی استعمال کر کے عمارت پر لگا دیتے ہیں اور پھر ماشااللہ کا بورڈ لگا کر سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں خدا بچائے گا۔ روئے زمین پر بسنے والی تمام دوسرے مذاہب کی قوموں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن امید کرتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں پیار محبت اور برابری کی بنیاد پر دیکھے۔ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر گھنٹوں ملکی مسائل کا رونا رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی گلی یا محلے کا بھی کوئی کام کرنے ہرگز آگے نہیں آتے۔
پٹواری سے لے کر پولیس تک کوئی کام پڑے تو اپنا اثرو رسوخ اور پیسہ استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔ دوسری قوموں کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسری قوموں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر جنسی سرچ کے حوالے سے آگے آگے ہیں لیکن امریکہ و یورپ کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں۔ ٹریفک کی لال بتی کو توڑ کر سینہ پھلاتے ہیں لیکن حکمرانوں اور دوسروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کی پوری پابندی کریں گے۔ کاروکاری، وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر خواتین کا قتل جیسی روایات پر عمل کرتے ہیں اور یورپ امریکہ کو خواتین کی عزت و احترام کا لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔
اگر ہم اچھی باتیں اپنائیں گے تو تصویر خوبصورت نظر آئے گی اور اگر بری باتیں نمایاں ہوں تو معاشرہ بدنما نظر آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ ہمارا معاشرہ سنور سکے۔ جس دن میں اور آپ ان منافقانہ رویوں سے نجات پالیں گے ہمارا معاشرہ اسی دن ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔