فارنزک رپورٹ کے مطابق لاہور میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیئر نائب امیر اور ایک مدرسے سے وابستہ مفتی عزیز الرحمٰن کی طالب علم سے جنسی زیادتی کی آڈیو، ویڈیو تجزیے میں اصل ثابت ہو گئی ہے جس کے بعد لاہور پولیس نے ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ویڈیو جس میں موجود طالب علم اور ملزم عزیز الرحمن دیکھے جا سکتے ہیں میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی ہے۔ فارنزک رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں موجود اشخاص کے شخصی خدوخال طالب علم اور ملزم عزیز الرحمن سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اس سے قبل عدالت نے مفتی عزیز الرحمن اور طالب علم کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا تھا جس کی رپورٹ تین جولائی کو پنجاب فارنزک لیب نے جاری کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق طالب علم اور مفتی عزیز الرحمن کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا تھا۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وقوعہ کافی پرانا ہونے کی وجہ سے ڈی این اے تجزیہ نہ ہو سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عزیز الرحمن کے کیس میں ہمارے پاس سب سے بڑا ثبوت ویڈیو تھی۔ اس ویڈیو میں ایک جرم ہوتے دیکھا گیا ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا تھا کہ اس ویڈیو کے اندر جو دو لوگ دیکھے جاسکتے ہیں کیا یہ وہی ہیں جن کے بارے میں ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ ہیں؟‘
’اس ویڈیو کی جو فارنزک رپورٹ موصول ہوئی اس میں یہ ثابت ہو گیا کہ ملزم بھی وہی ہے اور جو مدعی طالب علم ہے جنہوں نے ایف آئی آر کٹوائی وہ بھی وہی ہیں جنہیں ویڈٰیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔‘
شارق جمال کہتے ہیں کہ ’فارنزک لیب ٹیسٹنگ ہر کیس میں مختلف طریقے سے ہوتی ہے۔ یہ منحصر ہے کہ کیس کیا ہے، اس کا وقوعہ کیا ہے۔ بعض مرتبہ کیس لیٹ رپورٹ ہوتے ہیں۔ کسی وجہ سے اگر کیسز ایک ہفتہ یا دس دن کے بعد رپورٹ ہو رہا ہے تو ظاہری بات ہے اس میں ڈی این اے میچ نہیں کرے گا۔‘
’ایسے میں پھر دیگر ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں۔ جن میں جس پر الزام لگا ہے اس کا بیان، اس کا بیک گراؤنڈ، کیا وہ اس وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھا؟ کیا وہ جنسی عمل کرنے کے قابل ہے؟ کوئی گواہی ہے یا نہیں اور اس طرح کے بیشتر ثبوت اکٹھے کرتے ہیں اور اس کے بعد ہم ان ثبوتوں کی صفحہ مثل بنا کر عدالت میں پیش کرتے ہیں۔‘
شارق جمال کا مزید کہنا تھا کہ ’جنسی زیادتی عورت سے ہو یا مرد سے بنیادی طور پر دونوں کی تحقیقات میں ایک ہی طرح کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ فارنزک لیب ٹیسٹنگ ہو یا کوئی اور جو قانونی شہادت ہو اس کے حساب سے ہمیں چلنا ہوتا ہے۔ اس میں ڈی این اے، عینی شاہدین اور ان شہادتیں کتنی مضبوط ہیں، کیا انہوں نے وقوعہ ہوتے دیکھا ہے؟ اس کے علاوہ مظلوم کا اپنا بیان کس قدر قابل اعتماد ہے؟ ہر کیس میں یہ سب کچھ کیس کی نوعیت کے حساب سے قانون و ضابطے کے مطابق جانچہ جاتا ہے اوراس پھر اس کیس میں آگے تفتیش و تحقیقات بڑھائی جاتی ہیں۔‘
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال کا کہنا ہے کہ ’اب چونکہ فارنزک ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ ویڈیو میں جرم کرنے والا شخص بھی وہی ہے اور مظلوم بھی وہی جنہوں نے ایف آئی آر درج کروائی ہے اس لیے اب اس کیس میں قانون کے مطابق آگے کارروائی کی جائے گی۔ میرے خیال میں جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔‘
جنسی استحصال چاہے مرد کا ہو یا عورت کا اس میں ڈی این اے کی کیا اہمیت ہے اور ڈی این اے کتنے عرصے میں ہو جانا چاہیے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے ہم نے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کے چئیرمین طاہر اشرف سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان کا فون بند ہونے کی وجہ سے ان سے بات نہیں ہو سکی۔
البتہ جناح ہسپتال لاہور کی فارنزک لیب کے سابق سربراہ ڈاکٹر تجمل حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کیس میں جب وقوعہ ایک سال پرانا ہے تو اس میں ڈی این اے میچ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ڈی این اے کے لیے دونوں فریقین کے نمونے جتنی جلد بھیجے جائیں اتنا فائدہ ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب جنسی زیادتی چاہے وہ مرد کے ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ اس میں جس جگہ وہ وقوعہ ہوتا ہے وہاں س شواہد جتنی جلد اکٹھے کر کے ٹیسٹ کے لیے فارنزک لیب بھیج دیے جائیں اتنا اچھا ہے۔ ان نمونوں میں جو کچھ بھی جائے وقوعہ پر موجود ہے جیسے بیڈ شیٹ، کپڑے، قالین وغیرہ۔ جہاں جہاں یہ وقوعہ ہوا جیسے کمرہ ہو یا کسی میدان یا کھیت وغیرہ میں وہاں سے سب کچھ نمونے کے طور پر اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ ڈی این اے سیکریشنز میں ہوتا ہے جیسے سیمن، یا تھوک وغیرہ میں ہوتا ہے اور ان نمونوں کا وہاں ہونا ضروری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈی این کے لیے ہر کیس مختلف ہوتا ہے۔ پوری ہسٹری لینی پڑتی ہے کہ جس کا ڈی این اے کا نمونہ لیا جا رہا ہے ٹیسٹ سے قبل اس نے دن کیسے گزارے۔ اگر کسی مرد کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے اور واقعے کے فوراً بعد اس نے خود کو صاف کر لیا ہے یا پاخانہ خارج کر دیا ہے اور دو دن بعد وہ ٹیسٹ کے لیے جاتا ہے تو اس میں بھی ڈی این اے کا نمونہ میچ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کے ڈی این اے کے حوالے سے جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق اگر متاثرہ شخص نے خود کو صاف کر لیا ہے یا نہا لیا ہے اس کے باوجود بھی ڈی این اے کا نمونہ ممکنہ طور پر جسم کے مخصوص حصوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ وقوعہ پر موجود کپڑے، تولیے، ٹشو پیپر وغیرہ سے بھی نمونے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ان گائڈ لائنز کے مطابق جنسی زیادتی کی صورت میں ڈی این اے کے نمونے ٹیسٹ کے لیے دینے کا مخصوص وقت درکار ہے۔ اس کے بعد ڈی این اے کا میچ ہونا مشکل یا کبھی کبھار ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جائے وقوعہ سے اکٹھے کیے گئے کپڑے، چادریں یا دیگر ایسی اشیا جس پر ڈی این اے کی موجودگی کے چانس ہیں وہ تب تک ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں جب تک کہ انہیں دھو نہ دیا جائے۔
پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی ویب سائٹ کے مطابق اس نوعیت کے جرائم کے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے واقعے کے بعد پہلے تین سے پانچ دن بہت اہم ہوتے ہیں۔