اسلام آباد میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرکے مرکزی ملزم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔
سوشل میڈیا پر نوجوان لڑکے اور لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی ویڈیو کا انسپیکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد نے نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی صدر زون فاروق امجد بُٹر کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی تھی جنہوں نے رات گئے کارروائی کرکے ویڈیو میں نظر آنے والے ملزم عثمان مرزا کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے۔
گرفتار ہونے والے تینوں ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ وقار گوندل کے سامنے پیش کیا گیا جس کے بعد عدالت نے ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان نے ایس ایس پی آپریشنز کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا جس کے بعد ایس پی صدر زون کی نگرانی میں پولیس ٹیم نے رات گئے کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت تین ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
ترجمان پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان میں عثمان مرزا، فرحان اور عطا الرحمان شامل ہیں۔ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد پولیس نے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئےخاتون اورلڑکے پر تشدد کی وائرل ویڈیوز میں شامل عثمان مرزا کے مزید دو ساتھی گرفتارکر لیے۔ ملز مان کے خلاف مقدمہ درج کر کے مزید قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہے ۔ #HumSabKaIslamabad #IslamabadPolice pic.twitter.com/Xrsv5Otpa3
— Islamabad Police (@ICT_Police) July 7, 2021
معاملہ آخر تھا کیا؟
تھانہ گولڑہ کی حدود میں ہونے والے اس واقعے کی ایف آئی آر کا اندراج گولڑہ پولیس سٹیشن میں کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق واقعے کا وقت نامعلوم ہے جبکہ ذرائع کے مطابق یہ واقعہ چار پانچ ماہ پرانا ہے لیکن ویڈیو بدھ کے روز وائرل ہونے پر معاملہ سامنے آیا۔
ایف آئی آر میں درج ہے کہ ’مرکزی ملزم عثمان مرزا ساتھیوں سمیت اسلام آباد کے ای الیون ٹو میں واقع ایک عمارت کی چوتھی منزل پر اپارٹمنٹ میں گیا جہاں ملزمان نے لڑکی اور لڑکے کو ڈرایا دھمکایا، اسلحے کے زور پہ انہیں برہنہ کر کے فحش حرکتیں کیں اور ویڈیو بھی بنائی۔‘
پولیس نے ایف آئی آر میں پانچ دفعات عائد کی گئی ہیں۔ 341 کسی کو زبردستی روکنے کی دفعہ، 506i جرم کا ارتکاب، خاتون کو بزور اسلحہ برہنہ کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354a، جنسی ہراساں کرنے کی دفعہ 509 اور اجتماعی جرم کے ارتکاب کی دفعہ 34 عائد کی گئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ایف آئی آر میں عائد دفعات میں سے تعزیرات پاکستان دفع 354a کی کوئی معافی نہیں بلکہ اس کی سزا موت ہے یہ 302 کے برابر ہی ہے، کسی خاتون یا شخص کو برہنہ کرنے کے جرم کی کوئی معافی نہیں ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد مصطفی تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو جیسے ہی سوشل میڈیا پر پھیلنے والی وڈیو سے واقعے کا علم ہوا انہوں نے فوری نوٹس لے کر ملزمان کو گرفتار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی ترجیح ملزمان کو گرفتار کرنا تھا کیونکہ وڈیو میں اُن کی شناخت واضح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کر رہی ہے اور تمام ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ واقع چار پانچ ماہ پرانا معلوم ہوتا ہے کیا پولیس ہمیشہ وائرل ہونے والے واقعات پر ہی کارروائی کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایسا نہیں ہے پولیس کو جب کسی معاملے کا علم ہو گا تب ہی وہ کارروائی کر سکیں گے جیسے اب ہمارے علم میں آیا تو بغیر کسی کے شکایت درج کرائے پولیس نے از خود نوٹس لے کر کارروائی کی ہے۔‘
انہوں نے کہا اسلام آباد جینڈر پروٹیکشن سیل فعال ہے اور ایسے نوعیت کے واقعات کے سد باب کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ متاثرہ افراد کی شناخت خفیہ رکھی جاتی ہے لیکن ضروری ہے کہ متاثرہ افراد اعتماد کرتے ہوئے واقعہ رپورٹ ضرور کریں تاکہ بر وقت کارروائی ہو جائے۔
ملوث ملزمان کون ہیں؟
پولیس ذرائع کے مطابق مرکزی ملزم اسلام آباد میں کار شو روم ، رینٹ اے کار اور پراپرٹی کا کام بھی کرتا ہے۔
ابھی تک کی تفتیش سے یہی سامنے آیا ہے کہ ملزم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ زبردستی اُس اپارٹمنٹ میں گھسا جہاں لڑکا لڑکی موجود تھے اور بظاہر یہ پہلے سے طے شدہ پلاننگ معلوم ہوتی ہے کیونکہ ملزم اس سے پہلے بھی ایسی وارداتوں میں ملوث رہا ہے اور پولیس مزید اس کا کرمنل ریکارڈ بھی نکال رہی ہے۔
گرفتار تین ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ وقار گوندل کے سامنے پیش کر دیا گیا، عدالت نے ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
پولیس حکام نے مزید بتایا کہ ملزمان کے دو مزید ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
کیا متاثرہ افراد سے رابطہ ہوا؟
اس حوالے سے پولیس حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ چونکہ متاثرہ افراد نے ازخود پولیس سے رابطہ نہیں کیا اس لیے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ لڑکے کو ٹریس کر لیا گیا ہے، دونوں متاثرین طالب علم ہیں، ابھی ان کے بیانات لینا باقی ہیں پھر اسی حوالے سے کیس کو مزید آگے بڑھایا جائے گا لیکن پولیس کی کوشش ہے کہ اسے ٹیسٹ کیس کے طور پر حل کرے اور ملزمان کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ اور کوئی ایسا جرم کسی کے ساتھ نہ کر سکے۔