گوجرانوالہ پولیس نے یوٹیوبر محمد علی کو خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ محمد علی نامی ان یوٹیوبر کی ویڈیوز گذشتہ کئی روز سے پاکستان کی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر وائرل تھیں جن میں انہیں خواتین کو دوپٹہ پہننے کی تلقین کرتے اور ان کے ساتھ ویڈیوز بنانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
محمد علی کے اس طرز عمل کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جبکہ کئی افراد ان کی حمایت کرتے بھی دکھائی دیے۔
سی پی او گوجرانوالہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ کے مطابق گکھڑ منڈی تھانہ ضلع گوجرانوالہ کی پولیس نے محمد علی کو بالاآخر گرفتار کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ ایف آئی آر نوشہرہ کے رہائشی حسن بٹ کی مدعیت میں درج کی گئی ۔ حسن بٹ نے ایف آئی میں بیان دیا کہ ’وہ بدھ کے روز کسی کام سے گکھڑ منڈی آئے تھے جہاں ایک خواتین کے کالج کے باہر انہوں نے محمد علی کودیکھا جو وہاں کھڑی خواتین کو تنگ کررہے تھے اور ان کے ڈوپٹے کھینچ کر انہیں برہنہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
حسن بٹ نے بتایا کہ ’محمد علی کے ساتھ ان کے تین نامعلوم ساتھی بھی موجود تھے جو ان حرکات کی ویڈیو بنا رہے تھے۔‘
مدعی کے مطابق انہوں نے محمد علی کو اس حرکت سے روکا جس پرمحمد علی اور ان کے ساتھیوں نے انہیں گالیاں دیں اور انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دیں۔
تھانہ گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ میں ٹک ٹاکر کے خلاف دفعہ 34/ 506B/ 294/ اور 354 تعزیرات پاکستان مقدمہ درج کر کے انہیں جمعرات کی صبح گرفتار کر لیا ہے۔
گوجرانوالہ پولیس کے ترجمان محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’محمد علی کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر شہرت اور فالوورز بڑھانے کے لیے خواتین کو ہراساں کر کے شاہراہ عام پر پرینک ویڈیوز بناتے، ان کی تذلیل کرتےاور ان ویڈیوز کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پوسٹ کر رہے تھے۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق ’محمد علی کی ویڈیوز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہونے کے بعد سی پی او گوجرانوالہ نے ان کے خلاف نوٹس لیا اور اسی دوران حسن بٹ نے بھی ان کی شکایت کی اور ایف آئی آر درج کروائی جس کے بعد ایس پی صدر عبدالوہاب کی زیر نگرانی تھانہ گکھڑ منڈی پولیس نے انہیں گرفتار کر کے لیڈی پولیس کے ہاتھوں حوالات میں بند کروا دیا۔
محمد عمران نے بتایا کہ محمد علی نے اس بات کا اعتراف بھی کر لیا ہے کہ وہ اپنے یو ٹیوب چینل کے لیے راہ چلتی خواتین کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے جس پر اب انہیں شرمندگی ہو رہی ہے۔ عمران کا کہنا تھا کہ ان یوٹیوبر کے خلاف مزید کاروائی قانون کے مطابق ہو گی۔
دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن نگہت داد نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں تکنیکی پہلو یہ ہے کہ ان کی ویڈیوز میں جو خواتین دکھائی گئی ہیں ہمیں یہ لگتا ہے کہ وہ بھی پرینک کا حصہ ہیں۔ وہ عام خواتین نہیں ہیں۔ اس بات کی تصدیق تو یہ خود ہی کر سکتے ہیں لیکن ہمارے مشاہدے کے مطابق ان کی ویڈیوز میں خواتین کی آواز کا معیار اتنا عمدہ ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ سٹیج کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر تو وہ خواتین عام خواتین ہیں اور آرٹسٹ یا اداکار نہیں ہیں تو سیدھا سیدھا پی پی سی کا سیکشن 506 بی اس پر لاگو ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بلاوجہ غیر اخلاقی حرکتیں کر رہے ہیں اور خواتین کو تنگ کر رہے ہیں۔ اس جرم میں دو سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگہت داد کا کہنا ہے کہ ’اس کا جرم صرف پی پی سی میں ہی نہیں بلکہ سائبر کرائم لا کے زمرے میں بھی آتا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) بھی اس پر ایکشن لے سکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی بہت اچھا مواد بنا کر اس کی وجہ سے اپنے فالوورز بڑھاتے ہیں بلکہ محمد علی جیسے لوگوں کا مقصد ایسا سنسنی خیز یا مصالحے دار مواد بنانا ہے جو کہ آپ کے معاشرے میں بکے تاکہ آپ اس سے مالی فائدہ اٹھا سکیں اور آپ کے فالوورز میں اضافہ ہو۔ اس شخص کا مقصد ایک اخلاقی اقدار مسلط کرنے والی پولیس (مورال پولیس) کا کردار ادا کرنا تھا یا یوں کہیے کہ یہ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بن کر خواتین کو کہہ رہے تھے کہ وہ دوپٹہ لیں۔‘
نگہت داد نے مزید بتایا کہ ’ہمارے سائبر کرائم شکایات سیل پر اس شخص کی متعدد بار شکایت درج ہوئیں۔ لیکن ان میں ایک بھی خاتون نہیں تھی اسی لیے ہمیں یہ شک ہے کہ اس کی ویڈیوز میں دکھائی جانے والی خواتین کردار اس کے اپنے سٹیج کیے ہوئے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر بنائی جانے والی ویڈیوز میں اکثر کردار سٹیجڈ ہوتے ہیں۔‘
محمد علی 'ویلے لوگ خان علی' کے نام سے ٹک ٹاک اور یو ٹیوب اکاؤنٹ چلاتے ہیں۔ یو ٹیوب پر ان کے اس چینل پر تین لاکھ تئیس ہزار سبسکرائبرز ہیں جبکہ ٹک ٹاک پریہ موجود تو ہیں لیکن وہاں ان کی کوئی خاص فالوونگ نہیں ہے۔