مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے، جس کا اسلام آباد نے خیر مقدم، جبکہ دہلی نے اس کو مسترد کیا ہے۔
او آئی سی کی جانب سے ثالثی کی پیشکش تنظیم کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے پانچ جولائی کو سعودی عرب میں بھارتی سفیر اوصاف سعید سے ملاقات میں کی، جس میں اسلامی تنظیم کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر ایک وفد بھیجنے کا بھی ذکر ہوا۔
بھارت کی جانب سے پیشکش کو رد کر دیے جانے کے باوجود سمجھا جا رہا ہے کہ او آئی سی کی کوشش نے مسئلہ کشمیر کو عالمی تنازع کے طور پر دنیا کے سامنے رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔
معروف سیاسی تجزیہ کار اور سیاست دان سینیٹر مشاہد حسین سید کا اس سلسلے میں کہنا تھا: ’اور کچھ نہیں تو او آئی سی کی پیشکش سے مسئلہ کشمیر کا ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر ذکر تو ہو ہی گیا ہے، تو اس سے پاکستان کو کم از کم اتنا فائدہ تو ضرور ہوا۔‘
دوسری جانب کچھ حلقے اسلامی تنظیم کی پیشکش کو غیر اہم اور سعی لاحاصل قرار دیتے ہوئے اسے محض عالمی سطح پر او آئی سی کا قد بڑھانے کی کوشش گردانتے ہیں۔
او آئی سی کی صلاحیت
عالمی امور و تنازعات پر نظر رکھنے والے ماہرین او آئی سی کی عالمی مسائل کو حل کرانے کی صلاحیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
مشاہد حسین سید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ او آئی سی میں تنازعات حل کروانے کی صلاحیت ہے، نہ اس کے پاس اپنے کسی فیصلے پر عمل درآمد کروانے کا طریقہ کار موجود ہے۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس سلسلے میں کہا کہ او آئی سی کی پیشکش کسی صورت پر اثر ثابت ہو سکتی ہے اور نہ یہ تنظیم کوئی ایسا فعال ادارہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسائل بشمول کشمیر کا حل ممکن بنا سکے۔
تھینک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجیک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) سے منسلک ریسرچر محمد علی بیگ کے خیال میں او آئی سی کی ثالثی سے متعلق پیشکش کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’او آئی سی کی یہ پیشکش کچھ ہی عرصے میں اپنی موت آپ ہی مر جائے گی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس تنظیم کی سٹینڈنگ کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔‘
ان کے خیال میں او آئی سی مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم بھی نہیں کہلائی جا سکتی جو عرب لیگ کے بننے کے بعد بالکل واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے۔ ’یہ تنظیم تو ابھی تک عربی اور عجمی کی تقسیم میں پھنسی ہوئی ہے۔‘
تھینک ٹینک کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ الطاف حسین وانی کا کہنا تھا بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی ثالث مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت او آئی سی کے وفد کو بھی اس کے زیر انتظام کشمیر جانے کی اجازت نہیں دے گا۔
ریسرچر محمد علی بیگ نے کہا بھارت کے پاکستان کے علاوہ دوسرے اکثر مسلم ممالک سے بہت اچھے تعلقات ہیں جس کے باعث او آئی سی کے فورم پر اس کی مخالفت ممکن نہیں ہو سکے گی۔
او آئی سی نے پیشکش کیوں کی؟
سوال اٹھتا ہے کہ جب او آئی سی میں کسی بین الاقوامی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے تو اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہی کیوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کے خیال میں اس پیشکش کے پیچھے او آئی سی کا بین الاقوامی سطح پر قد بڑھانے کی سوچ کار فرما ہو سکتی ہے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا: ’میرے خیال میں یہ اپنے آپ کو بین الاقوامی سطح پر اہم بنانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بچوں پر پیلٹ گنز کے استعمال کی مخالفت کا ذکر کیا۔
’شاید او آئی سی میں سوچ موجود ہو گی کہ دوسری عالمی تنظیموں کی طرح ہم بھی بڑے معاملات پر بات کریں تاکہ ان کا عالمی تشخص برقرار رہے۔‘
جنرل (ر) طلعت مسعود نے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’شاید او آئی سی دنیا کو یہ تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی خاطر کوششیں کر رہی ہے۔‘
محمد علی بیگ کا کہنا تھا کہ او آئی سی اتنی ہی کار آمد اور با اثر تنظیم ہوتی تو غزہ اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے اسی کا کوئی حل نکال لیتی۔
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز سے تعلق رکھنے والے امجد یوسف کا کہنا تھا کہ اگر او آئی سی یہ کوشش اپنے طور پر کر رہی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
’ہاں اگر اس کے پیچھے کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی موجود ہے تو شاید بات آگے بڑھ سکے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعات میں خصوصاً مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کو شامل کیے بغیر بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اچھے تعلقات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا‘
مشاہد حسین سید کے خیال میں او آئی سی کی پیشکش کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مسئلہ کشمیر مسلم دنیا کے بڑے تنازع کے طور پر سامنے آیا۔ ’بہرحال او آئی سی ایک بڑی تنظیم ہے اقوام متحدہ کے بعد، اور اگر اس فورم پر کسی تنازعے کی بات ہوتی ہے تو دنیا اس کو اہمیت دے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ او آئی سی کی پیشکش سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ کشمیر فلسطین کی طرح ایک زندہ تنازع ہے اور مختلف عالمی ادارے اس پر توجہ دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارتی خارجہ امور کی وزارت نے پاکستان کا نام لیے بغیر او آئی سی کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے رد کیا کہ تنظیم کسی کی ’ذاتی دلچسپی‘ کے لیے استعمال ہونے سے محتاط رہے۔
الطاف حسین وانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش کے لیے بھارے کا راضی ہونا بہت ضروری ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ بھارت ایسی کسی آفر کو قبول کرے گا۔‘
او آئی سی کیا ہے؟
او آئی سی، جسے ماضی میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کہا جاتا تھا، اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا بین الاقوامی ادارہ ہے، جس میں دنیا کی 57 ریاستیں شامل ہیں۔
او آئی سی کا بیان کردہ مقصد ’دنیا کے مختلف لوگوں میں بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے جذبے سے مسلم دنیا کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔‘
او آئی سی نے مسلم اکثریتی ممالک کے لیے رکنیت محفوظ رکھی ہے، جبکہ روس، تھائی لینڈ، اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
بھارت شروع سے ہی او آئی سی کی رکنیت کا خواہش مند رہا ہے تاہم اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
سال 2019 میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارت کی اس وقت کی وزیر خارجہ (مرحومہ) سوشما سوراج نے خطاب کیا تھا۔