خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں اور حکومت کے مابین تنازعہ آج کل شدت اختیار کر گیا ہے۔ گذشتہ دو دن سے صوبے بھر میں ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں اور انہوں نے ایمرجنسی کے علاوہ دیگر سروسز سے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس سارے معاملے کی بنیادی وجہ تو خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پر وزیر صحت کے نجی سکیورٹی گارڈز کی جانب سے مبینہ تشدد ہے لیکن اس کے پیچھے حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں کے لیے ایک نیا مجوزہ قانون بھی ہے۔
ڈاکٹروں کی جانب سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ حکومت اس نئے قانون کے تحت ہسپتالوں کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ نئے قانون کے تحت ڈاکٹروں کو اپنے متعلقہ اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیجا جائے گا جہاں پر وہ سیاسی انتقام کا شکار ہو سکتے ہیں۔
قانونی مسودے میں نیا کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا حکومت کے نئے قانونی مسودے کی کاپی حاصل کر کے اس کی مختلف شقوں کا جائزہ لیا ہے۔
حکومت اس نئے مجوزہ قانون کو عوام کے بہتر مفاد میں ہیلتھ ریفارمز کا نام دیتی ہے۔
اس نئے قانون مسودے کو ‘خیبر پختونخوا علاقائی و ضلعی صحت اتھارٹی 2019‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کو صوبائی اسمبلی کے آئندہ آنے والے اجلاس میں پاس کرنے کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اس مسودے کی رو سے صوبہ بھر میں ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو اضلاع میں صحت اور ہسپتالوں کے معاملات کو دیکھیں گے۔
صوبائی سطح پر ایک پالیسی بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس کے ممبران میں صوبائی وزیر صحت، سیکرٹری صحت اور ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز کے سربراہان شامل ہوں گے۔
پالیسی بورڈ ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز کے بنیادی معیار، مخلتف ضوابط، بھرتیوں کے طریقہ کار سمیت مخلتف بھرتیوں کے لیے اہلیت کا تعین بھی کرے گا۔
ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز کا قیام
اس نئے قانونی مسودے کے تحت علاقائی سطح پر ریجنل ہیلتھ اتھارٹی (ار ایچ اے) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس اٹھارٹی کے پانچ ممبران میں دو تجربہ کار ڈاکٹرز جن کا کم از کم دس سال کا تجربہ ہو، ایک تجربہ کار نرس شامل ہوں گے۔
دیگر دو ممبران میں علاقے کے ’معروف‘ سماجی کارکن جن کو قانونی، معاشی یا انتظامی تجربہ حاصل ہو شامل ہوں گے۔ اتھارٹی کے چیئرمین کا تقرر دیگر ممبران کے ووٹ کی بنیاد پر ہوگا۔
آر ایچ اے کے ممبران کی تقرریاں وزیر اعلیٰ کریں گے جبکہ ممبران کے نام سرچ اینڈ سکروٹنی کی جانب سے تجویز کردہ ہوں گے۔ اس نئے مسودے کی رو سے آر ایچ اے کے کسی بھی ممبر کو وزیر صحت فارغ کر سکتا ہے اگر وہ سمجھے کہ یہ ممبر موثر طریقے سے کام نہیں کر رہا ہے۔
ڈاکٹرز کے اعتراضات
آر ایچ اے کے ممبران کی تقرری کے طریقہ کار پر ڈاکٹرز اعتراض کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا ڈاکٹرز کونسل کے ممبر ڈاکٹر حامد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹرز اور نرس کے علاوہ دیگر دو نان ڈاکٹروں کو اتھارٹی کا ممبر بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ڈاکٹر حامد کے مطابق مسودے میں جو لکھا گیا ہے کہ دیگر ممبران علاقے کے بااثر اور ’معززین‘ ہوں گے تو اس کی تعریف کس طرح کریں گے کہ وہ اس معیار پر پورا اترے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ان دو ممبران کی مدد سے ڈاکٹرز کو تنگ کیا جائے گا او ان کو پولیٹیکل وکٹمائزیشن کا شکار بنایا جائے گا۔‘
ریجنل ہیلتھ اتھارٹی کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ علاقائی اتھارٹی کے لیے بجٹ کی منظوری دیں اور ساتھ میں صحت کے مراکز کے لیے فنڈز بھی مختص کریں۔ آر ایچ اے کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف کوئی بھی قانونی کارروائی کریں۔
اس کے علاوہ مسودے کے9(f) میں یہ لکھا گیا ہے کہ آر ایچ اے صحت کے مراکز میں ڈاکٹرز کی تقرریاں، ملازمین کے کام کرنے کے قواعد و ضوابط، سمیت تادیبی کارروائیوں میں شفافیت لانے کے بھی مجاز ہوں گے۔
آر ایچ اے کو یہ بھی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی خالی عہدے کو ختم، نیا عہدہ پیدا کرنا یا کسی بھی عہدے کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کرنے کا بھی مجاز ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹروں کی تقرریاں و پوسٹنگ
اس اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ڈاکٹرز سمیت صحت مرکز کے دیگر عملے کی تقرری کریں۔ اس مسودے کی شق نمبر10 میں لکھا ہے کہ صوبائی شعبہ صحت ڈاکٹرز کی تقرریاں ان کے متعلقہ ڈومیسائل کی بنیاد پر کریں گے۔
مسودے کے مطابق جن ڈاکٹرز کے تبادلے ہو جائیں گے وہ سرکاری ملازمین تصور ہوں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن لینے کے بھی حقدار ہوں گے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر حامد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹز کمیونٹی کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ وہ اپنے متعلقہ اضلاع میں ڈیوٹیاں سر انجام دیں لیکن پہلے ان مراکز صحت میں ضروری سہولیات تو فراہم کیے جائیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس پالیسی میں نرمی بھی ہونی چاہیے کیونکہ کچھ علاقے جو دہشت گردی کا شکار ہوگئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والے ڈاکترز پشاور میں مستقل رہائش پذیر ہیں تو وہ کس طرح وہاں دوبارہ جا سکتے ہیں۔
مسودے کی رو سے یہ ملازمین ‘ڈائنگ کیڈر’ تصور ہوں گے یعنی ان کی پروموشن اور دیگر مراعات لینے کے حقدار نہیں ہوں گے۔
اسی شق میں لکھا گیا ہے کہ جب یہ ملازمین ریٹائر ہو جائیں تو یہ ان کی پوزشین یا عہدہ ختم تصور ہوگا لیکن اگر اتھارٹی کو ضرورت پڑی تو وہ دوبارہ اس نوکری کا اشتہار دیں گے۔
ڈاکٹر حامد کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون سے آنے والے نئے ڈاکٹرز کو نوکری ملنے میں دشواری ہوگی۔
ٹریننگ کے لیے آر ایچ اے سے اجازت نامہ لینا ضروری ہوگا
اس مسودے کی شق نمبر11 میں لکھا گیا ہے کہ وہ ملازمین جو پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ پر جانا چاہتے ہیں تو ان کا وہ دورانیہ چھٹی تصور ہوگا اور ان کو کوئی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
تاہم مسودے کے مطابق حکومت کی جانب سے جو وظیفہ مقرر کیا گیا ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ ضروری ترامیم کے بعد دیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ کو آر ایچ اے ختم کرنے کا اختیار
مجوزہ قانونی مسودے کے شق نمبر 12 میں وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وزیر صحت کی سفارشات پر آر ایچ اے کو اس بنیاد پر تحلیل کریں کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حامد نے بتایا کہ ’اس کو سیاسی مداخلت نہیں تو کیا کہا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے تحت وزیر صحت یا وزیر اعلیٰ جب بھی چاہیں اتھارٹی پر اپنے فیصلے منوا سکتے ہیں۔
ضلعی ہیلتھ اتھارٹی کا قیام
اسی نئے مجوزہ قانونی مسودے کے شق نمبر13 کے رو سے ایک ضلعی صحت اتھارٹی بنائی جائے گی۔ اس اتھارٹی کے ممبران میں اضلاع کے ڈاکٹرز میں بیلٹ کے ذریعے ایک ممبر منتخب ہوگا۔
دیگر ممبران میں نرسنگ عملے کی نمائندہ جو ووٹ کے ذریعے منتخب ہوں گی، جبکہ تین علاقے کے ‘معززین‘ ہوں گے جن کا سماجی، تعلیمی، اور دیگر فیلڈز میں خدمات موجود ہوں۔
اسی مسودے کے شق 13 کے ذیلی شق9 میں لکھا گیا ہے کہ ضلعی ہیلتھ اتھارٹی صوبائی وزیر صحت کو جواب دہ ہوگی اور یہ اتھارٹی وزیر صحت کی جانب سے مختلف مواقع پر احکامات ماننے کے بھی پابند ہوں گے۔
اضلاع کے سطح پر مراکز صحت کے سارے معاملات کو ضلعی صحت اتھارٹی دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اتھارٹی کسی بھی مرکز صحت میں ادویات کے خریدنے کے مجاز ہوں گے لیکن آر ایچ اے سے اجازت نامہ لینا ضروری ہوگا۔
وزیر صحت کو اس مسودے کے مطابق یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ضلعی صحت اتھارٹی کو کسی بھی وقت تحلیل کریں۔
ان اتھارٹیز کو فنڈز کہاں سے ملیں گے؟َ
اس نئے مسودے کے مطابق آر ایچ اے ایک فنڈ کو قائم کرے گا کہ آر ایچ اے فنڈ کے نام سے ہوگا۔ اس فنڈ میں صوبائی حکومت کی جانب سے دیے جانے والی رقم، آر ایچ کا کسی سے بھی لیا گیا قرضہ، عوام کی جانب سے سہولیات دینے کی مد میں پیسے، خیرات، اور دیگر ذرائع سے گرانٹس اسی فنڈ میں جمع کیے جائیں گے۔
اس نئے مسودے کے مطابق ار ایچ اے اور ضلعی صحت اتھارٹی ہر سال منظوری کے لیے بجٹ صوبائی حکومت کو بھیجیں گے اور ان کو اسی اندازے کے مطابق بجٹ مختص کیا جائے گا۔
حکومتی موقف
حکومت کی جانب سے بارہا یہ کہا گیا ہے کہ وہ عوامی مفاد کی خاطر یہ ریفارمز لا رہے ہیں۔ گذشتہ روز پریس کانفرنس میں میڈیا نمائدوں سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یہ ریفارمز ضروری تھے اور ان ریفارمز کو حکومت نافذ کر کے رہیں گے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر ’یہ خیال ذہن سے نکال دیں کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوا لیں گے، ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔‘ انہوں نے ہڑتال کرنے والے ڈاکٹر کے بارے میں بتایا کہ ’عوام کو تکلیف پہچے گی تو ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔‘