خیبر پختونخوا کے وزیر صحت کی جانب سے ڈاکٹر پر تشدد کی خبروں کے بعد صوبے بھر میں ڈاکٹروں نے احتجاج کے طور پر ماسوائے ایمرجنسی کے تمام او پی ڈیز بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے-
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے آڈیٹوریم میں جمعرات کی صبح سے جاری احتجاج کے دوران ڈاکٹروں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسسٹنٹ پروفیسر ضیاء الدین پر تشدد میں ملوث وزیرِ صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ سمیت تمام ذمہ دار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انھیں گرفتار کیا جائے، بصورت دیگر ایمرجنسی سہولت کی فراہمی بھی بند کر دی جائے گی۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نوجوان ڈاکٹر سجاد یوسفزی کا کہنا ہے کہ ’دراصل حکومت آئی ایم ایف کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ریجنل ہیلتھ اتھارٹی (ر- ایچ- اے) اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی نظام( ڈیایچ اے) کے ذریعے ڈاکٹروں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہسپتالوں کی نجکاری کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ جس کے خلاف ہم اٹھ کھڑے ہوئے- ڈاکٹر ضیاء الدین ہمارے ساتھ اس تحریک کے سربراہ تھے۔ داکٹر ضیاء الدین کی ترقی بھی رکوا دی گئی اور ان کو نوشیروان برکی سے ملاقات کے لیے وقت بھی نہیں دیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت ڈومیسائل کی بنیاد پر ڈاکٹروں کو ان کے آبائی اضلاع بھجوا رہی ہے۔ جس کے تحت چھ سو سے زائد ڈاکٹروں کے تبادلے ہو چکے ہیں اور مزید ڈاکٹر ان کی فہرست زیر غور ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں سیاسی انتقام بھی شامل ہے۔‘
ڈاکٹر سجاد کہتے ہیں کہ نجکاری سے مریضوں کو مسئلہ ہو گا۔ فیسیں بڑھ جائیں گی۔ ہسپتالوں کی حالت ابتر ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ہماری ملازمت بھی محفوظ نہیں ہوگی- ’آر ایچ اے اور ڈی ایچ اے کے کالے قانون کو تو پنجاب کے ڈاکٹر بھی نہیں مانتے اور یہ اتنی ہی اچھی کوشش ہے تو اس مسودے کو میڈیا، سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ کے سامنے کیوں نہیں رکھتے؟‘
’جہاں تک اپنے علاقوں میں جانے کی بات ہے تو ہر کسی کا یہ ایک بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے لیے اچھی جگہ کا انتخاب کرے۔ لوگ آگے بڑھتے ہیں نہ کہ پیچھے جاتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر ضیاءالدین کی طرح کئی ڈاکٹر ایسے ہیں جو باہر ملکوں کی بھاری تنخواہیں چھوڑ کر پشاور آئے ہیں۔ اب ان کو کم از کم یہ سہولت تو دی جائے کہ وہ اپنی مرضی کے شہر میں ملازمت کریں۔‘
خیبر پختونخوا میں جہاں ایک طرف ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے وہاں دوسری طرف مریضوں کے خاندانوں نے بھی ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج شروع کر کے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ان ڈاکٹروں کو مریضوں کا خیال ہوتا تو ’سرکاری اوقات میں احتجاج اور شام میں اپنی نجی کلینیکس نہ کھول کر بیٹھے ہوتے۔‘
موجودہ صورتحال پر پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی محمود جان نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ خود ڈاکٹر ضیاء الدین نے کیمرے کے سامنے اعتراف کر دیا ہے کہ انھوں نے انڈہ مارا تھا۔ اگر آپ 33000 ریال کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں تو بدمعاشی کے لیے تو نہیں آئے ہیں۔ شاید وہ ایگ بوائے سے متاثر ہیں، لیکن یہاں حالات مختلف تھے۔‘
محمود جان کا کہنا تھا کہ چند ڈاکٹروں کی موجودہ ’فرسٹریشن‘ کی وجہ کچھ اور ہے۔ ’حکومت اقتدار میں آئِی تو ہم نے صحت کے شعبہ میں حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ ان میں ایک یہ تھا کہ ہم نے ڈاکٹروں کے ہسپتال میں داخلے اور باہر نکلنے پر تھمب امپریشن کو ضروری قرار دیا۔‘
انھوں نے ڈاکٹروں کے اعتراضات کا جواب کچھ اس انداز میں دیا کہ ان ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی جو بیرون ممالک میں سالوں سے مقیم ہیں لیکن ان کے نام اب بھی یہاں کے ہسپتالوں میں درج ہیں اور وہ مستقل تنخواہیں لے رہے ہیں۔
ہسپتالوں کی نجکاری کے بارے میں محمود جان سمجھتے ہیں کہ اس سے خاص طور پر مریضوں کو فائدہ ہوگا۔ ’وہ ادھر اُدھر کلینیکس بھاگنے کی بجائے ہسپتال میں ہی علاج کروائیں گے۔ دن کے وقت سرکاری جب کہ شام میں موزوں فیسوں پر نجی علاج ہوگا-‘
’ہم ڈومیسائل کی بنیاد پر ڈاکٹروں کو ان کے آبائی اضلاع بھجوا رہے ہیں۔ یہ ترقی کی راہ میں سب سے اہم سنگ میل ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ ڈاکٹر اپنے علاقے کے لوگوں کا علاج کریں! حالانکہ اپنے علاقوں میں جانے پر ان کو حکومت سے تنخواہیں بھی زیادہ ملیں گی۔‘