امریکی فوج کے مددگار افغان مترجمین کو نکالنے کا اعلان لیکن منزل نامعلوم

بائیڈن انتظامیہ کسی ایسے ملک یا خطے کی نشاندہی کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جہاں ان افراد کو ویزے جاری ہونے تک رکھا جا سکے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے مارچ میں299 خصوصی امیگرینٹس ویزے جاری کیے تھے جبکہ اپریل میں یہ تعداد 356 اور مئی میں 619 رہی تھی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغان جنگ میں 20 سال تک امریکی افواج کی مدد کرنے والے افغان مترجمین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے تیار ہے لیکن ان افراد کی منزل کیا ہوگی اور یہ افراد انہیں منتقل کرنے والی پروازوں تک کیسے پہنچیں گے، اس پر ابھی تک غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ’آپریشن الائیز ریفیوج‘ جولائی کے آخری ہفتے میں شروع کر دیا جائے گا اور اس میں سب سے پہلے ان افراد کو افغانستان سے نکالا جائے گا جو پہلے ہی امریکہ میں رہائش کی درخواست دے چکے ہیں۔

تاہم وائٹ ہاوس ترجمان جین ساکی نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ان افراد کی تعداد بتانے سے انکار کر دیا، جنہیں پہلی پروازوں سے افغانستان سے باہر منتقل کیا جائے گا۔

 جین ساکی کا کہنا تھا: ’ہم جس وجہ سے یہ اقدامات کر رہے ہیں وہ ان افراد کا بہت بہادر ہونا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے اس کردار کے معترف ہوں جو انہوں نے گذشتہ کئی سال کے دوران ادا کیا ہے۔‘

مترجمین کو افغانستان سے نکالنے کی پروازوں کی تصدیق ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن اور جنرل آسٹن سکاٹ ملر کے درمیان بدھ کو ملاقات ہوئی ہے۔ جنرل سکاٹ رواں ہفتے ہی افغانستان میں اعلیٰ امریکی کمانڈر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ جین ساکی کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن افغانستان سے امریکی افواج کا ’منظم اور محفوظ‘ انخلا یقینی بنانے پر بذات خود جنرل سکاٹ ملر کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔

جنرل سکاٹ ملر تین سال تک افغانستان میں امریکی افواج کی جنگی سرگرمیوں کے نگران رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی کمانڈ کے آخری دنوں میں افغانستان کے کئی اضلاع کے طالبان کے قبضے میں جانے پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

صدر بائیڈن پر دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی جانب سے امریکی انخلا سے قبل افغان مترجمین کی مدد کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ وائٹ ہاؤس نے امریکی قانون سازوں کو گذشتہ مہینے اس حوالے سے بریف بھی کیا تھا۔

افغانستان سے باہر منتقل کیے جانے کے اس منصوبے میں ممکنہ طور پر دسیوں ہزار افغان شامل ہو سکتے ہیں۔ کئی ہزار افغان شہری جنہوں نے امریکی افواج کے ساتھ کام کیا اور ان کے اہل خانہ پہلے ہی خصوصی امیگرنٹس ویزوں کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بائیڈن انتظامیہ کسی ایسے ملک یا خطے کی نشاندہی کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جہاں ان افراد کو ویزے جاری ہونے تک رکھا جا سکے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق کابل میں موجود امریکی سفارت خانے نے مارچ میں 299 خصوصی امیگرنٹس ویزے جاری کیے تھے جبکہ اپریل میں یہ تعداد 356 اور مئی میں 619 رہی تھی۔

 گذشتہ ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت ان کی حلف برداری سے اب تک 2500 خصوصی امیگرنٹس ویزوں کی منظوری دے چکی ہے۔

اس وقت تک امریکیوں کے لیے بطور مترجمین، ڈرائیورز اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے 18 ہزار شہری امریکی ویزوں کے لیے درخواستیں جمع کروا چکے ہیں اور اپنی درخواستوں کے منظور ہونے کے منتظر ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے افغانستان میں امریکی فوج کے مشن کے 31 اگست کو خاتمے کا اعلان کیا تھا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا