امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلا کے اپنے فیصلے کا سختی سے دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ناقابل فتح جنگ میں امریکیوں کی ایک اور نسل کی قربانی دینے کے بجائے افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس ایسٹ روم میں گفتگو کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ افغان فوج طالبان کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جن کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں بڑی پیشرفتوں کے باعث ملک میں دوبارہ خانہ جنگی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
جو بائیڈن نے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ مقرر کی ہے، سوائے ان 650 فوجیوں کے جو کابل میں امریکی سفارتخانے کو سکیورٹی فراہم کریں گے۔
افغانستان میں اپنی 20 سالہ موجودگی کے مقاصد کے حوالے سے بائیڈن نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں اس لیے آیا تھا تاکہ القاعدہ کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے ختم کیا جاسکے اور نائن الیون جیسے کسی اور حملے کو روکا جاسکے۔
انہوں نے کہا: ’ہم نے ان مقاصد کو حاصل کیا ہے، ہم اسی وجہ سے گئے تھے۔ ہم قوم کی تعمیر کے لیے افغانستان نہیں گئے۔ یہ صرف اور صرف افغان عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں کہ وہ اپنے ملک کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جو بائیڈن نے اس موقع پر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ کابل کا طالبان کے ہاتھوں میں چلے جانا کوئی قابل قبول نتیجہ نہیں ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’کیا میں طالبان پر اعتماد کرتا ہوں؟ نہیں۔ لیکن مجھے افغان فوج کی صلاحیت پر اعتماد ہے، جو جنگ کے لیے بہتر تربیت یافتہ، بہتر ہتھیاروں سے لیس اور زیادہ اہل ہے۔‘
ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں طالبان ایک بڑی طاقت بنے ہوئے ہیں، حکومت کے حامیوں کو امید ہے کہ امریکیوں کے بعد وہ افغانستان میں طالبان کے کردار کو کوئی شکل دیں گے۔ افغانستان کے اقتدار کا ڈھانچہ سیاسی طور پر تشکیل دیا جائے گا نہ کہ فوجی ذرائع سے اور اس میں جزوی طور پر بین الاقوامی قانونی جواز اور دیگر امداد بھی شامل ہوگی۔
ایک رپورٹر نے جب امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا افغان حکومت میں بدعنوانی اس طرح کا استحکام حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ ہے جس کا ان کے پیش رو اور امریکی فوجی کمانڈروں نے تصور کیا تھا؟ تو بائیڈن نے اس خیال کو قطعی طور پر رد نہیں کیا اور کہا: ’ابھی تک مشن ناکام نہیں ہوا ہے۔‘
صدر بائیڈن کانگریس کے قانون سازوں کے دباؤ کا مستقل سامنا کررہے ہیں کہ اس بارے میں مزید تفصیل پیش کریں کہ وہ ہزاروں افغان باشندوں کی کس طرح مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جنہوں نے بطور مترجم، ڈرائیور اور دیگر ملازمتوں میں امریکی فوج کی مدد کی۔ کئی لوگوں کو خوف ہے کہ جب امریکی انخلا مکمل ہوجائے گا تو وہ طالبان کے نشانے پر ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے براعظم امریکہ کے باہر امریکی سہولیات کی شناخت کی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں انخلا شدہ افغان باشندے اس وقت تک قیام کر سکیں گے جب تک ان کی ویزا کی درخواستوں پر کارروائی ہو رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ جنوری میں ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک ڈھائی ہزار افغان شہریوں کو خصوصی تارکین وطن ویزا دیا گیا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو کہا تھا کہ امریکی فوج دنیا بھر کے متعدد بیرون ملک اڈوں میں ممکنہ عارضی رہائش گاہوں کے بارے میں غور کر رہی ہے جہاں ان افغان شہریوں کو رکھا جا سکے جو ویزا کے منتظر ہیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ان مردوں اور خواتین کو واضح پیغام ہے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ کا ریاست ہائے متحدہ میں گھر ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔ جیسے آپ ہمارے ساتھ تھے۔‘
صدر بائیڈن نے بتایا کہ بطور سینیٹر وہ اس بارے میں شاکی تھے کہ امریکہ افغانستان میں کتنا کام انجام دے سکتا ہے اور انہوں نے مزید تیر با ہدف مہمات کی وکالت کی تھی۔ وہ اس بات کا جواب دینے میں کسی حد تک مبہم تھے کہ آیا جنگ کی قیمت وصول ہوئی یا نہیں۔ لیکن انہوں نے دلیل دی کہ امریکی مقاصد بہت پہلے ہی حاصل ہوچکے ہیں۔
’ہم وہاں دو وجوہات کی بنا پر گئے تھے۔ ایک تو یہ کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کی جاسکے، جیسا کہ میں کہتا رہا ہوں۔ دوسری وجہ القاعدہ کی اس علاقے سے امریکہ پر مزید حملے کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ تھا۔ ہم نے وہ دونوں اہداف حاصل کر لیے۔‘
ان کے مطابق: ’یہی وجہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ صحیح فیصلہ ہے اور کافی عرصے سے واجب الادا ہے۔‘
طالبان کی ملاقاتوں کا سلسلہ
اگرچہ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے، تاہم مغربی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے افغانستان کے 100 سے زیادہ اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ملک کے آدھے حصے پر مشتمل 34 صوبوں کے 200 اضلاع پر ان کا قبضہ ہے۔
دوسری جانب طالبان قیادت نے مختلف ممالک کے وفود سے ملاقاتیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتایا ہے کہ شیخ شہاب الدین دلاور کی سربراہی میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اعلیٰ وفد نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں روسی صدر کے خصوصی ایلچی ضمیر کابولوف اور ان کے وفد سے ملاقات کی ہے۔
1/4
— Suhail Shaheen. محمد سهیل شاهین (@suhailshaheen1) July 8, 2021
A high-ranking delegation from the Political Office, headed by Sheikh Shahabuddin Delawar met Zamir Kabolove, Special Envoy of the President of the Russian Federation for Afghanistan and his delegation in Moscow. The two sides discussed the new developments in our country,
سہیل شاہین کے مطابق: ’دونوں فریقوں نے ہمارے ملک میں نئی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا، جن میں منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام، امن عمل اور باہمی دلچسپی کے امور شامل ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’طالبان کے وفد نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اپنے اندرونی معاملات میں دوسروں کی مداخلت برداشت کریں گے۔‘
2/4
— Suhail Shaheen. محمد سهیل شاهین (@suhailshaheen1) July 8, 2021
prevention of drug trafficking, the peace process and matters of mutual interests. The IEA delegation reiterated its well-known stand that it will not allow any one to use the soil of Afghanistan against any other country, nor will tolerate intervention of others
سہیل شاہین نے مزید کہا: ’شیخ دلاور نے کہا کہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں اب تمام سرحدیں کھلی اور فعال رہیں گی۔ ہم سب کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم سفارت کاروں، سفارت خانوں، قونصل خانوں، غیر سرکاری تنظیموں اور ان کے عملے کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔‘
3/4
— Suhail Shaheen. محمد سهیل شاهین (@suhailshaheen1) July 8, 2021
in our internal affairs. Sheikh Delawar maintained that all borders now in IEA control will remain open and functional. We assure all, we are not going to target diplomats, embassies and consulates, NGOs and their staff. The Russian Envoy expressed his satisfaction and