ایک طرف جذبات کا امڈتا طوفان اور دوسری طرف سیاسی موقع پرستی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے بعد طے پانے والی ترک۔اسرائیل ڈیل کے بعد اگر کسی چیز پر فلسطینیوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے تو وہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی طرف سے نئے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہرتصوغ کو اقتدار سنبھالنے پر مبارک باد ہے۔ یہ پیغام انہوں نے 12 جولائی کو براہ راست فون کال کے ذریعے ان تک پہنچایا۔
ترک صدر نے اسحاق ہرتصوغ کو صہیونی ریاست کا سربراہ بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی کہ ’مشرق اوسط کی سلامتی کے لیے ترکی اور اسرائیل تعلقات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔‘ اگلی ہی سانس میں ترک صدر نے اسحاق ہرتصوغ کو یاد دلایا کہ ’ترکی اور اسرائیل کے درمیان توانائی، سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔‘
صدر اردوغان کے اس تہنیتی پیغام کو فلسطینی حلقے ناپسندیدہ قرار دے رہے ہیں۔ ترکی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ترک ایوان صدر اور ان کے حمایتی میڈیا کی جانب سے مبارک سلامت کے اس پیغام کی تشہیر نے غزہ پر نفسیاتی طور پر مثبت اثرات مرتب نہیں کیے۔ اب تک ترکی کا تمام تر ’ڈیمیج کنڑول‘ ناکام دکھائی دیتا ہے۔
ترکی، فلسطینی جدوجہد کا واضح حمایتی رہا ہے۔ یہ حمایت برسوں سے جاری ہے۔ اس حمایت کا اثر اسرائیل بھی محسوس کرتا ہے۔ غزہ کے 20 برس سے جاری محاصرے نے اہل غزہ کو جذباتی طور پر شدید متاثر کیا ہے۔
اپنی مزاحمت کے علاوہ، فلسطینیوں نے اپنے غیر متزلزل ایمان اور جذبے کو برقرار رکھا ہے۔ ان کی حیرت انگیز حاضر دماغی قابل داد ہے۔ ان حالات میں اہل غزہ امید اور توقعات بھری نگاہوں سے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہیں۔ ترکی ان دوستوں میں سے ایک ہے۔
اہل غزہ سے ترکی کے اس تعلق کو تب قوت ملی تھی جب مئی 2010 میں اس کے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا تھا۔ تب سے نہ صرف فلسطینی بلکہ بہت سے ترک بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ ترکوں سے رشتہ اب نئے دور اور نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ رشتہ زبانی کلامی نہیں بلکہ حقیقی اور عملی ہے۔
یہ کوئی کہنے کی بات نہیں ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے درجے کو تب سے کم کرنے کے بعد سے ہی ترکی کئی طرح کا دباؤ بڑھا ہے۔ وہ نیٹو کا رکن ہے اور امریکہ کا اتحادی بھی ہے۔ اس نے 2011 میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا درجہ کم کر دیا تھا۔
ترکی نے اسرائیل سے تعلقات بحالی کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ اسرائیل نے بوجوہ ان کوششوں کو ناکام بنایا ہے یا ان پر سرد مہری سے کام لیا ہے۔ اسرائیل اہل غزہ پر مسلط ناکہ بندی توڑنے اور انہیں سکون کا سانس لینے کی اجازت بھی نہیں دے رہا اور نہ ہی اس پر وہ تیار ہے۔
ترکی کا معاملہ قدرے الگ ہے۔ ترکی پر ان تعلقات کی خرابی کے معاشی سیاسی یا دیگر اثرات ایسے نہیں ہیں جن کی وجہ سے وہ دباؤ میں آئے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ترک اسرائیل تعلقات کی خرابی کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین تجارتی عمل رکا نہیں ہے۔ سیاسی سطح پر کشیدگی موجود ہے البتہ دونوں ملکوں نے تجارت وکاروبار کو متاثر نہیں ہونے دیا۔
اس بارے میں ترکی کے خبروں کے چینل ٹی آر ٹی کی حالیہ رپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’کاروبار اور سیاست بالکل الگ الگ معاملات ہیں اور ان کے درمیان دیوار چین حائل ہے۔‘ دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار کے حجم میں 2010 کے بعد سے 26 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ترکش ائر لائنز کا اسرائیل تک پروازوں کا بزنس کوویڈ 19 کے باوجود اپنے عروج پر رہا۔ مسافروں کی بھاری تعداد نے دونوں ملکوں کے درمیان سفر کیا۔ دونوں ملکوں کی تجارت میں 15 ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اعداد وشمار اخباری نہیں۔ ان کو ترکی کے شعبہ شماریات نے جاری کیا ہے۔
ان تمام تر حقائق کے باوجود ترکی نے غزہ پر اپنی اصولی پوزیشن ترک نہیں کی ہے۔ مسلم ممالک میں کم از کم ترکی ہی وہ ملک ہے جس نے غزہ کے بارے میں اپنے موقف میں لچک نہیں دکھائی اور اسرائیل پر دباؤ مسلسل برقرار رکھا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام میں جاری جنگ کی وجہ سے ترکی خود کو حالت جنگ میں سمجھتا ہے۔ خطے میں جنگجو رجحانات میں اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ مستقبل کے بارے میں معاشی اشارے حوصلہ افزا نہیں قرار دیئے جا سکتے۔
پناہ گزینوں کا سیلاب سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ روس سے کشمکش جاری ہے اور خود حکمران جماعت میں اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں فلسطینیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ ترکی کے داخلی امور ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان یہ ضرورت محسوس کریں کہ انہیں اپنے سیاسی لائحہ عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ انہوں نے جس نوعیت کے بھی سیاسی مقاصد طے کیے ہوں یا اندازے لگائے ہوں، ان کو از سرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی سزا کے طور پر انہیں اس طرح تنہا کیا جا رہا ہے۔
یہ رویہ دراصل اہل غزہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس سے غزہ میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ لوگ ترکی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ بہت سے فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ترک طرز عمل درست نہیں ہے لیکن غلطی کی گنجائش نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔
غزہ سے تعلق رکھنے والے حماس کے سابق سیاسی مشیر ڈاکٹر احمد یوسف نے ویب سائٹ ’المانیٹر‘ کو ایک انٹرویو میں اس رائے کا اظہار کیا کہ ’ساری صورت حال کا ترکی پر الزام دھرنا درست نہیں ہے۔‘ ان کی رائے میں ’ترکی پر ساری ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کرا سکا۔‘ ڈاکٹر احمد یوسف نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ماضی میں طے پانے والی ترک ۔ اسرائیل ڈیل سے ترکی نے کم از کم وہ سب کچھ حاصل کیا ہے، جو وہ حاصل کر سکتا تھا۔ اس نے غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے اپنے سارے آپشن اچھی طرح سے استعمال کیے ہیں۔ ترکی کے بارے میں یہ ریمارکس خوش کن ہیں اور نیک تمناؤں کا اظہار ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ترکی پر غزہ کی ناکہ بندی کے ختم نہ ہونے کا سارا الزام نہیں دھرا جا سکتا۔ یہ ناکہ بندی اسرائیل نے کر رکھی ہے، ترکی نے نہیں کی اور نہ ہی کرائی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے اخلاقی یا دوسرا تباہ کن نتیجہ برآمد ہو رہا ہے یا ہو گا، اس کا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے، اس کے وہ شراکت دار ہیں جو خطے میں موجود ہیں یا پھر اس کے مغربی اتحادی ہیں۔
تاہم اس ساری صورت حال میں بھی ترکی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی حکومت سے تجارت نہ کرے جس پر فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے۔ ان جرائم میں نسلی امتیاز بھی شامل ہے۔
اسرائیل مسلسل بین الاقوامی اور انسانی قوانین پامال کر رہا ہے۔اسرائیل مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس پر سراسر غیر قانونی قابض ہے۔ اس نے غزہ پر تباہ کن ناکہ بندی مسلط کر رکھی ہے۔ ان حالات میں وہ کون سا اخلاقی جواز ہے جسے بنیاد بنا کر وہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش میں ہے۔
ترک ۔ اسرائیل تعلقات میں معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے، غزہ کا محاصرہ جاری رہے گا، دیواریں قائم اور خاردار تاریں لگی رہیں گی۔ جو لوگ گلاس آدھا بھرا دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اہل غزہ کو ہزاروں ٹن ترکی امداد دے رہا ہے۔ دو سو بستروں کا ہسپتال دیا جا رہا ہے، پانی صاف کرنے کا پلانٹ لگایا جا رہا ہے۔ اس وقت غزہ میں پینے کا صرف تین فیصد پانی قابل استعمال رہ گیا ہے۔
یہ سب درست لیکن یہ ساری امداد اسرائیلی چینل سے ہی آئے گی۔ یہ اسی راستے آئے گی جس راستے سے ’ماوی مرمرا‘ کو آنے سے روک دیا گیا تھا۔ معاملہ یہ نہیں ہے کہ غزہ شدید معاشی بدحالی سے دوچار ہے مسئلہ یہ ہے کہ 2006 میں ہونے والے جمہوری انتخابات کے بعد سے غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے۔
ان انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے والے اسرائیلی اور اس کے اتحادی تھے۔ اہل غزہ کو اس سیاسی فیصلے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہیں اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے کسی دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے مسئلہ کو کچھ غذائی اجناس، تھوڑے سے پانی اور ہسپتال سے حل نہیں کیا جا سکتا۔
مئی 2010 میں جب اسرائیل کے کمانڈوز نے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کیا تھا، غزہ میں غیرمعمولی واقعہ رونما ہوا تھا۔ اہل غزہ نے محسوس کیا تھا کہ ان کی کوئی قیمتی متاع ان سے چھین لی گئی ہے لیکن انہیں فخر بھی تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ یہاں کی نوجوان نسل کو یہ احساس ہوا تھا کہ ان کا ساتھ دینے والا، ان کا خیال کرنے والا مسلم ملک بھی ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جو ان کے لیے قربانی بھی دے سکتا ہے۔ اہل غزہ کو برسوں سے یہ امید رہی کہ ترکی اسرائیل پر اپنا دباؤ برقرار رکھے گا۔ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہو جائے گی۔ یہ سب نہ ہو سکا۔ شومئی قسمت اب تو اسرائیل ترکی کے راستے یورپ کو قدرتی گیس فروخت کرنے جا رہا ہے۔
بعض لوگ ترک صدر کے اپنی اسرائیلی ہم منصب کے نام تہنیتی پیغام کو میٹھی گولی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ تاہم ثنا خوانان انقرہ کے لیے بری خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں ترکی کے لیے کسی بھی کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ قیدیوں کے معاہدے کے معاملے میں قاہرہ کی ثالث کی حیثیت پر اصرار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
العربیہ نیوز چینل نے اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تل ابیب نے انقرہ کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ قیدی معاہدے میں ثالثی کی پیش کش کو مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیلی ہم منصب کے لیے اردوغان کا تہنیتی پیغام دراصل ’جاگتے رہنا‘ کی صدا ہے۔ کیا ترکی اپنا خارجہ پالیسی ایجنڈا تبدیل کر رہا ہے؟ کیا وہ پھر سے ہمسایہ ملکوں سے زیرو پرابلم کی پالیسی کی طرف لوٹ رہا ہے؟
جو بھی ہے، غزہ کو سیاست کی ضروریات کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ یہ نہایت حوصلہ شکن صورت حال ہے۔ ایسے میں فلسطینیوں کو کسی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے۔ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور دنیا سے کہیں ہمارے ساتھ آئے۔