خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں 21 نومبر کو بگن کے علاقے میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد فریقین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئی تھیں لیکن ضلعی انتظامیہ کے مطابق فائر بندی کے اعلان کے بعد اب لڑائی بند ہو گئی ہے۔
پاڑہ چنار جانے والے مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے جبکہ ضلعی انتظانیہ کے مطابق حملے کے بعد جھڑپوں میں 80 سے زائد افراد جان سے گئے۔
مجموعی طور پر متحارب گروپوں کے درمیان جھڑپوں میں ہسپتال اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق کرم میں 124 افراد جان سے گئے ہیں اور 150 تک زخمی ہوئے ہیں۔
کرم میں پائیداد امن کے لیے پیر کو اس معاملے پر قائم کیے جانے والے گرینڈ جرگے کے اراکین نے وزیر اعلٰی علی امین گنڈا پور سے ملاقات کی ہے۔
جرگے کے اراکین میں سابق وفاقی وزیر نورالحق قادری، سابق سینیٹر صالح شاہ، سابق سینیٹر سجاد خان، سابق وفاقی وزیر جی جی گل جمال، سابق گورنر خیبر پختونخوا انجینیئر شوکت اللہ اور سینیٹر عبدالرزاق شامل ہیں۔
وزیر اعلٰی ہاؤس خیبر پختونخوا سے جاری ایک بیان کے مطابق جرگہ اراکین کو وزیر اعلٰی نے صوبائی حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کرم میں حالات پر قابو پانے کے لیے 30 نومبر کو وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی سربراہی میں صوبے کا اعلٰی سرکاری وفد کوہاٹ بھی گیا تھا اور وہاں پر گرینڈ جرگے سے ملاقات کی تھی۔
علی امین گنڈا پور نے جرگے سے خطاب میں بتایا تھا کہ کرم میں جو بھی امن خراب کرے گا، ان کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج علاقے میں امن کے لیے تعینات ہے اور علاقے میں قائم تمام مورچے بلا تفریق ختم کیے جائیں گے۔‘
علی امین گنڈاپور نے مزید بتایا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین اختلاف اپنی جگہ، لیکن علاقے میں امن کے لیے وفاقی حکومت ایف سی کے دستے فراہم کرے گی۔
علی امین نے علاقے میں اسلحے کے حوالے سے بتایا کہ علاقے کے لوگوں سے اسلحہ جمع کیا جائے گا اور جو بھی ہتھیار اٹھائے گا تو اسے دہشت گرد تصویر کیا جائے گا۔
علی امین گنڈاپور کے بعد گذشتہ روز گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ کوہاٹ کا دورہ کیا اور گرینڈ جرگے میں شرکت کی۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے جرگے سے خطاب میں بتایا کہ صوبے کی سیاسی قیادت کے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن امن کے لیے اب یکجا ہیں۔
گورنر نے بتایا کہ ’جرگے کے ساتھ جتنے دن بھی چاہیے ہیں بیٹھ سکتا ہوں اور کرم میں امن کی بحالی میں علمائے کرام اپنا کردار ادے کریں۔‘
ڈپٹی کمشنر دفتر میں قائم کنٹرول روم کے اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتوار (یکم دسمبر) سے کرم میں مکمل فائر بندی کی گئی ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا تمام علاقوں میں فائر بندی ہوئی ہے یا کچھ علاقوں میں اب بھی مسئلہ ہے، اس کے جواب میں اہلکار نے بتایا کہ کسی بھی علاقے میں بھی اب مسئلہ نہیں ہے اور مکمل فائر بندی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لوئر کرم پولیس کنٹرول روم کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ روز سے فائر بندی ہے اور فریقین نے مورچے خالی کر دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’مورچے خالی کیے گئے ہیں اور ان کا کنٹرول پولیس، ایف سی اور فوج نے سنبھال لیا ہے لیکن ٹل پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ اب بھی بند ہے۔‘
زمینی صورت حال کیا ہے؟
ضلعی انتظانیہ کی جانب سے فائر بندی کا اعلان تو کیا گیا ہے لیکن کیا واقعی جھڑپیں رک گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے گذشتہ ہفتے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی فائر بندی کا اعلان کیا تھا لیکن جھڑپیں بدستور جاری رہی تھی۔
بگن سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی محمد عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے فائر بندی کے خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ (اتوار) سے فائر بندی ہوگئی ہے اور ’ہم نے جھڑپیں نہیں دیکھی ہیں۔‘
عالم نے بتایا کہ مورچے بھی خالی کیے گئے ہیں اور مورچوں میں اب سکیورٹی فورسز کے اہلکار موجود ہیں جبکہ مجموعی طور علاقے میں اب خوف کی فضا قدرے کم ہوئی ہے۔
اپر کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کی بات کی جائے تو وہاں مقامی صحافی راشد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس بار بالکل کل تین طرف سے فائر بندی ہے اور ہم نے فائرنگ کی آواز نہیں سنی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اپر کرم میں مورچے بھی سکیورٹی فورسز نے سنبھالے ہوئے ہوئے لیکن ٹل پاڑہ چنار روڈ کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
راشد خان نے بتایا کہ ’تمام بینک بند ہیں جبکہ بازاروں میں ضروری اشیا نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ شوگر، گردوں کے مریضوں کی ادویات اور روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہونے والی ادویات کی کمی ہے۔
اسی طرح راشد خان کے مطابق بینکوں کی بندش سے لوگوں کو پیسے نکالنے میں بھی مشکلات ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی بندش سے ایزی پیسہ سمیت باقی مائیکرو فنانس بینک بھی کام نہیں کر رہے ہیں۔