ہم ہیولوں کے دور میں ہیں جہاں سایوں کو مجسم حقیقت، پستہ کرداروں کو قد آور اور فکر سے محروم ذہنوں کو دانشور سمجھا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں جھوٹ کے سامنے سچ شکست خوردہ ہو اور جھوٹ پاؤں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
ستم ظریفی کہ سیاست ہو یا صحافت۔ جب تالیوں، لائیکس اور ویوز کے محتاج ہو جائیں، ایجنڈا مصلحت بن جائے، دانشور، صحافی عوامی رائے سچائی سے تراشنے کی بجائے عوامی مقبولیت کی پیروی اختیار کر لیں تو پھر حقائق مسخ ہوتے ہیں اور جھوٹ بیانیہ بن جاتا ہے۔
گذشتہ ہفتے اسلام آباد کی سڑکوں پر کیا ہوا؟ کتنی لاشیں گریں؟ کتنا خون بہا اور کتنے زخمی سڑکوں پر مدد کو پکارتے رہے اس سب پر سوشل میڈیا پر ہاہاکار ہم نے سنی۔ مجھ جیسے حساس لوگوں کے لیے کوئی ایک لاش، کوئی ایک زخمی اور خون کا ایک دھبہ بھی اذیت ناک ہے مگر جس طرح خون اور لاشوں کی خواہش کو خبر بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے زیادہ انسانیت کے پردے میں بربریت، حقائق کے پردے میں سفاکیت اور سیاست کے پردے میں نفرت پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
تحریک انصاف کے حالیہ اور گذشتہ لانگ مارچ کے مقاصد تاحال واضح نہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوں عمران خان کی رہائی ممکن نہ ہو گی، بار بار کی محاذ آرائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بار بار کی پسپائی کے باوجود اب پھر تحریک انصاف کے اگلے لانگ مارچ کی تیاری کی شنید ہے۔ اب کی بار شاید منزل پنجاب ہو لیکن ہاتھ کیا آئے گا؟ ہاں ملک روز بند ہو گا، معیشت اور سیاست کو نقصان ہو گا، تحریک انصاف سیاسی حل کی طرف نہیں جا رہی، نہ سیاست دانوں سے بات کر نا چاہ رہی ہے۔۔ نتیجتاً مضبوط کون ہو گا۔۔ ہر پسپائی کے بعد مضبوط کون ہو رہا ہے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔
تحریک انصاف کی سیاست کو اس محاذ آرائی سے کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو گا کیونکہ اب پی ٹی آئی میں بڑھتی آوازیں بھی مطالبہ کر رہی ہیں کہ سیاسی حل کی بجائے محاذ آرائی کسی طور قابل عمل نہیں۔ مگر کیا کریں کہ پی ٹی آئی صرف مقتدرہ سے مذاکرات کی خواہاں ہے، عدالتوں، پارلیمان اور سیاسی نظام پر نا اعتبار ہے اور نا یقین رکھنے کو تیار۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماجی میڈیا فسطائیت کے نرغے میں ہے جہاں اسلام آباد کے بارے جھوٹ تو دکھائی دیا مگر ضلع کرم کا سچ کسی کو نظر نہیں آیا۔ دانشوروں، انفلوئنسرز اور وی لاگرز کو احتجاج کا آئینی حق تو نظر آیا مگر بدقسمتی سے پاڑہ چنار کے لوگوں کے جینے کا آئینی حق کسی کو نظر نہیں آیا؟ پشتونوں کی غیرت کو سیاسی ہتھکنڈا بنا کر استعمال کرنا تو سمجھ میں آیا مگر پارا چنار اور کرم کے معصوموں اور بے گناہوں کا قتل عام آنکھوں سے اوجھل رہا۔
ریاست اور سیاست سب کرم ایجنسی کی صورتحال سے آنکھیں چراتے اپنی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے، ایسے میں دل غیر محسوس طور پر مردہ سا محسوس ہوا اور دماغ ماؤف۔ کیا ہم سب اہل صحافت اور سیاست کسی طور اپنے ضمیر کی عدالت میں جوابدہ ہیں؟
ریاست اپنے ہی کردہ گناہوں کی سزا جھیل رہی ہے، اپنی ہی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی آگ نے دامن جلانا شروع کر دیا ہے، اپنے ہی تیار کردہ اثاثے اپنے ہی خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ جنگ بیرونی محاذوں سے اندرونی حدود میں پھیل چکی ہے۔ گلی گلی، کوچہ کوچہ نفرت کا جو بیج دہائیوں پہلے بویا گیا تھا اب وہ ایسی خاردار فصل بن چکی ہے کہ کاٹیں تو اپنے ہاتھ ہی زخمی۔
سوشل میڈیائی فسطائیت پوری طرح آج بھی مملکت کو مستقل آمریت میں دھکیلنے کی سہولت کاری کر رہی ہے جبکہ سیاست دیوار سے لگی آخری ہچکیوں میں اپنے وجود پر نوحہ زن ہے۔
مصنوعی ذہانت کاسہارا لینے والے دراصل انہی کی خدمت کر رہے ہیں جو ملک میں جمہوریت اور آزادئ رائے کے مخالف ہیں۔ جس دن ریاست اور سماجی فسطائیت کا گٹھ جوڑ ہو گیا انسانی حقوق اور عارضی جمہوریت کے حامی اسی فسطائیت کے حامی ہوں گے جس کا وہ ماضی میں پر چار کرتے رہے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ غیر مقبول تحریر پر کوئی تالی نہیں بجے گی مگر ضمیر مطمئن ہے کہ سچ تالیوں اور لائیکس کا غلام نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔