امریکی صدر جو بائیڈن نے فیڈرل گن کے الزامات میں سزا سے پہلے ہی اپنے بیٹے ہنٹر کو صدارتی معافی نامہ جاری کر دیا حالانکہ انہوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔
صدر بائیڈن نے اتوار کی رات باضابطہ طور پر اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے پر محکمہ انصاف کی طرف سے ’جان بوجھ کر اور غیر منصفانہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ ایک طویل بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکی عوام ایک باپ کے طور پر ان کے فیصلے کو سمجھیں گے۔
یہ معافی 12 دسمبر کو ہنٹر بائیڈن کو جون میں وفاقی گن قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات پر سزا سنائے جانے سے تقریباً دو ہفتے پہلے جاری کی گئی ہے۔
ستمبر میں وفاقی ٹیکس چوری کے الزامات میں جرم قبول کرنے کے بعد انہیں 16 دسمبر کو ایک الگ فوجداری کیس میں بھی سزا سنائی جانی تھی۔
صدر بائیڈن نے معافی نامہ جاری کرتے ہوئے کہا: ’آج، میں نے اپنے بیٹے ہنٹر کے لیے معافی نامے پر دستخط کیے۔ جس دن میں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا میں نے کہا تھا کہ میں محکمہ انصاف کی فیصلہ سازی میں مداخلت نہیں کروں گا اور میں اپنی بات پر قائم رہا یہاں تک کہ میں نے اپنے بیٹے کے خلاف سلیکٹیو اور غیر منصفانہ طور پر مقدمہ چلتے ہوئے دیکھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جرائم میں استعمال، ایک سے زیادہ خریداری یا کسی اور خریدار کے طور پر ہتھیار حاصل کرنے جیسے عوامل کے بغیر لوگوں پر کبھی بھی جرمانہ الزامات صرف اس لیے نہیں عائد کیے جاتے کہ انہوں نے بندوق کی خریداری کا فارم کیسے بھرا۔‘
’وہ لوگ جنہوں نے سنگین (نشے کی) عادت کی وجہ سے اپنے ٹیکس کی ادائیگی میں تاخیر کی لیکن بعد میں انہیں سود اور جرمانے کے ساتھ اسے ادا کر دیا تو یہ عام طور پر غیر مجرمانہ سرگرمی قرار دی جاتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہنٹر کے ساتھ اس سے مختلف سلوک کیا گیا تھا۔‘
اتوار کی شام کو ایک علیحدہ بیان میں ہنٹر بائیڈن نے کہا کہ وہ ’آج مجھے دی گئی معافی کو کبھی بھی معمولی نہیں سمجھیں گے اور جو زندگی میں نے دوبارہ بنائی ہے وہ ان لوگوں کی مدد کے لیے وقف کریں گے جو ابھی تک بیمار اور تکلیف میں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے اپنی بری لت کے تاریک ترین دنوں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے اور اس کی ذمہ داری قبول کی ہے جو ایسی غلطیاں ہیں جن کا سیاسی کھیل کے لیے مجھے اور میرے خاندان کو عوامی سطح پر رسوا کرنے اور شرمندہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ میرے گہرے عقیدے اور اپنے خاندان اور دوستوں کی غیر متزلزل محبت اور حمایت کی وجہ سے میں پانچ سال سے زیادہ وقت تک نشے کی لت سے دور رہا۔‘
ان کے والد کا اچانک اعلان اس موقف کے بالکل برعکس تھا جو اس نے چھ ماہ قبل لیا تھا جب اس نے عوامی طور پر اعلان کیا تھا کہ اگر انہیں مجرم قرار دیا جائے تو وہ ہنٹر کو معاف نہیں کریں گے۔
جون میں اے بی سی نیوز کے ڈیوڈ موئیر نے صدر بائیڈن سے کہا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کے مقدمے کے نتائج کو قبول کریں گے جس کے جواب میں جو بائیڈن نے کہا: ’ہاں، ضرور۔‘
جو بائیڈن نے موئیر سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے سے انکار کر دیں گے۔
بائیڈن نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ جب ان کے بیٹے کو ڈیلاویئر گن کیس میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو ’میں جیوری کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔ میں ایسا کروں گا اور میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔‘
آٹھ نومبر کو ٹرمپ کی جیت کے چند دن بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے ہنٹر بائیڈن کی سزا کے لیے معافی یا رحم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سے یہ سوال متعدد بار پوچھا گیا ہے۔ ہمارا جواب ایک ہی رہا ہے جو نہیں ہے۔‘
تاہم اپنے اتوار کے بیان میں جو بائیڈن نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کے خلاف الزامات صرف اس وقت سامنے آئے جب ’کانگریس میں میرے کئی سیاسی مخالفین نے انہیں مجھ پر حملہ کرنے اور اسے میرے انتخاب کی مخالفت کرنے کے لیے اکسایا اور یہ کہ محتاط طریقے سے کی گئی پلی ڈیل بعد میں عدالت میں پیش کی گئی۔‘
ان کے بقول: ’اگر پلی ڈیل ہو جاتی تو یہ ہنٹر کے مقدمات کا ایک منصفانہ اور معقول حل ہوتا۔ کوئی بھی معقول شخص جو ہنٹر کے کیسز کے حقائق کو دیکھتا ہے کسی اور نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا جس سے ہنٹر کو صرف اس لیے نکالا گیا کہ وہ میرا بیٹا ہے اور یہ سراسر غلط ہے۔‘
انہوں نے کہا بے لگام حملوں اور انتخابی قانونی کارروائی کے باوجود ہنٹر کو توڑنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ساڑھے پانچ سال نشے کی لت سے دور رہا ہے۔ ہنٹر کو توڑنے کی کوشش میں، انہوں نے مجھے بھی توڑنے کی کوشش کی اور اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ یہاں رک جائے گا۔ بس بہت ہو گیا۔‘
صدر بائیڈن نے مزید کہا: ’میں نے اپنے پورے کیریئر میں ایک سادہ اصول پر عمل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف امریکی عوام کو سچ بتاؤ۔ وہ انصاف پسند ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں نظام انصاف پر یقین رکھتا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے اس کے ساتھ لڑائی لڑی ہے، میں یہ بھی مانتا ہوں کہ غیر مہذب سیاست نے اس عمل کو متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے انصاف کے نظام میں خرابی پیدا ہوئی ہے اور ایک بار جب میں نے ویک اینڈ میں یہ فیصلہ کیا، تو اس میں مزید تاخیر کی ضرورت نہیں تھی۔‘
’مجھے امید ہے کہ امریکی عوام سمجھ جائیں گے کہ ایک باپ اور صدر نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ معافی ہنٹر بائیڈن کے لیے ایک طویل عرصے سے چلنے والی قانونی کہانی پر محیط ہے جس نے عوامی طور پر انکشاف کیا وہ اپنے والد کی 2020 کے صدارتی انتخابات میں فتح کے ایک ماہ بعد یعنی دسمبر 2020 میں وفاقی تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے۔
انہیں رواں سال جون میں ڈیلاویئر کی وفاقی عدالت کی جانب سے 2018 میں بندوق خریدنے کے لیے تین جرائم کا مجرم قرار دیا گیا تھا کیوں کہ استغاثہ کے مطابق انہوں نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے وفاقی فارم بھرتے ہوئے یہ جھوٹ بولا کہ وہ منشیات کا غیر قانونی استعمال کرنے یا اس کے عادی نہیں تھے۔
ہنٹر کو ستمبر میں کیلیفورنیا میں بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ان پر کم از کم 14 لاکھ ڈالر ٹیکس ادا کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا گیا تھا لیکن انہوں نے جیوری کے انتخاب شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ایک حیرت انگیز اقدام میں بدعنوانی اور سنگین الزامات میں جرم قبول کرنے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں اپنے خاندان کو مزید تکلیف اور شرمندگی سے بچانے کے لیے جرم قبول کر رہے ہیں جب گن کیس میں کوکین کی لت کے ساتھ ان کی جدوجہد کے بارے میں قابل مذمت تفصیلات نشر کی گئیں۔
امریکہ میں ٹیکس چوری کے جرم کی سزا 17 سال اور گن چارجز میں 25 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے حالانکہ وفاقی سزا کے رہنما ضوابط سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بہت کم وقت کے لیے جیل جاتے اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ قید سے مکمل طور پر بچ جاتے۔
امریکی صدر کو وفاقی عدالت یا فوجی کورٹ مارشل کے ذریعے سزا یافتہ کسی کو بھی مجرم کو معافی دینے کا اختیار ہے۔
صدارتی معافی نامہ معاف کیے گئے جرم کی مزید سزا کو روکتی ہے اور مجرمانہ سزا کے مزید نتائج کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیتی ہے تاہم صدر کو ریاستی سطح کی سزاؤں پر معافی دینے کا اختیار نہیں ہے۔
صدارتی معافی میں مجرمانہ ریکارڈ کا خاتمہ شامل نہیں ہے لیکن یہ زیادہ تر قانونی معذوریوں کو بحال کر دیتی ہے جن میں ووٹنگ کے حقوق اور جیوری پر بیٹھنے اور آتشیں اسلحہ رکھنے کی قابلیت شامل ہے تاہم یہ بھی بے گناہی کی علامت نہیں ہے۔
© The Independent