ایک ٹیم نے تحقیق شروع کی ہے کہ آیا کتے، بکریاں اور فارم کے دیگر جانور قدرتی آفات مثال کے طور پر آتش فشاں کے پھٹنے اور زلزلوں کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔
محقین نے ہزاروں جانوروں کو ایک پروگرام میں شامل کیا جس میں ان کے جسموں پر چھوٹے ٹرانسمیٹر لگائے گئے۔ ممالیہ جانوروں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو لگائے گئے ٹرانسمیٹرز کے ذریعے ان حرکات پر خلا میں موجود سیٹلائٹ کے ذریعے نظر رکھی جائے گی۔
یہ پروگرام نہ صرف قدرتی آفات کے قریب آنے پر جانوروں کے ردعمل کا تجزیہ کرے گا بلکہ ان کی نسلوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور نقل مکانی کے رجحانات کا بھی مطالعہ کرے گا۔
سسلی میں ایٹنا پہاڑ کی ڈھلوانوں پر کی جانے والی گذشتہ تحقیق میں سینسرز نے دکھایا کہ آتش فشاں کے پھٹنے سے قبل بکریاں بے چین ہو گئیں اور اونچائی کی طرف جانے سے انکار کر دیا۔
منصوبے کے سربراہ مارٹن ویکلسکی، جو جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل بیہیوئیر سے وابستہ ہیں، نے اخبار دی گارڈین کو بتایا: ’انہیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ ایسا کیسے کرتی ہیں، لیکن وہ ضرور کرتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بالآخر ہم تقریباً چھ مصنوعی سیاروں کا بیڑہ خلا میں بھیجنے اور ایک عالمی مشاہداتی نیٹ ورک قائم کرنے کی امید رکھتے ہیں جو نہ صرف دنیا بھر میں جنگلی حیات کی حرکات اور جانوروں کی صحت کی تفصیلات فراہم کرے گا بلکہ یہ بھی ظاہر کرے گا کہ یہ مخلوقات قدرتی مظاہر جیسا کہ زلزلوں پر کیسے ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔‘
یہ بات ابھی تک غیر واضح ہے کہ جانور اس طرح کا رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ ویکلسکی کہتے ہیں کہ یہ ممکنہ طور پر ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت سے پتھروں سے آئنز کا ہوا میں نکلنا ہو سکتا ہے، جو ان کے ردعمل کا سبب بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیگنگ ٹیکنالوجی نے سائنس دانوں کے لیے جانوروں کے رویے پر نظر رکھنا آسان بنا دیا ہے جس میں چھوٹے ڈیجیٹل ٹرانسمیٹر ڈیٹا جمع کرتے ہیں جو تجزیے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک جنگلی سؤر کے کان پر لگایا گیا الیکٹرانک ٹیگ دکھا چکا ہے کہ کس طرح افریقی سوائن فیور، جو انتہائی متعدی بیماری ہے جو جنگلی سؤروں میں اور پالتو سؤروں تک تیزی سے منتقل ہوتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی سائنس دانوں کو جانوروں کے نقل مکانی کے رجحانات اور ان کی وجوہات سمجھنے میں بھی مدد دے گی، جیسا کہ ڈیتھ ہیڈ ہاک موتھ (پتنگوں کی قسم) جو ہر سال یورپ اور افریقہ کے درمیان دو ہزار میل کا سفر کرتے ہیں۔
ویکلسکی کے بقول: ’اسی طرح ہم جانوروں کی آبادیوں کا مطالعہ کر سکیں گے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ وہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی رہائش گاہوں کی تبدیلیوں پر کیسے ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔‘
خلا کے ذریعے بین الاقوامی تعاون برائے حیوانی تحقیق (آئی سی اے آر یو ایس) کئی سال پہلے شروع ہونا تھا لیکن یوکرین پر حملے کی وجہ سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر روسی ساتھیوں کے ساتھ تعاون معطل کرنا پڑا۔
اب ٹیم نے ایک چھوٹا نیا مصنوعی سیارہ تیار کر لیا ہے جو اگلے سال اس پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کے لیے خلا میں بھیجا جائے گا۔
© The Independent