ایران کے انقلابی گارڈز نے ابھرتی ہوئی ماڈلز کی جانب سے مبینہ طور پر ملک میں رائج اسلامی لباس کے قوانین توڑنے پر تین ماڈلنگ ایجنسیوں پر چھاپے مارے ہیں۔
ارک شہر کے کمانڈر جنرل محسن کریمی نے نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز کو بتایا: ’انڈر گراؤنڈ ایجنسیوں کے عملے کو ’بے حیائی کو فروغ ‘ دینے پر حراست میں لیا گیا‘۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کتنے افراد گرفتار ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ الزامات کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر ماڈلز کی پورٹ فولیو تصاویر شیئر کرنا ہے۔
ایرانی حکام پہلے بھی ماڈلنگ ایجنسیوں اور ماڈلز کے خلاف مغربی لباس میں تصاویر پوسٹ کرنے پر کارروائی کر چکے ہیں۔ ایران میں مغربی لباس حجاب سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔
جنرل کریمی کہتے ہیں: ’جو ہماری روایات کی پاسداری نہیں کرتے اور سوچتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جلد یا بدیر وہ قانون کی پکڑ میں ضرور آئیں گے‘۔
ایرانی حکام طویل عرصے سے ملک میں بڑھتے مغربی رجحانات خاص طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی کلچر کے بڑھتے اثرو رسوخ پر خبردار کرتے آئے ہیں ۔ سوشل میڈیا اس حوالے سے اسلامی اقدار پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے ایرانی حکام نے ایک پاپ گانے پر سکول کی بچیوں کے رقص کی ’پریشان کن‘ وڈیو سامنے آنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔
ملک کے وزیر تعلیم محمد بتہائی کا کہنا ہے: ’ماہرین اس وڈیو کے ذرائع جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دشمن ایسی وڈیوز کے ذریعے ملک میں بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں سکول کی اس وڈیو کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد پوشیدہ ہیں۔‘
وڈیو میں ایرانی نژاد امریکی ریپر ساسی کے گانے پر سکول کی بچیوں کو رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایران میں انسانی حقوق کے سینٹر کے مطابق وڈیو میں کچھ طالبات اور اساتذہ کو ایک آن لائن چیلنج میں گانے ’جینٹل مین‘ پر رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے 2016 میں ماڈلنگ انڈسٹری کے خلا ف کارروائیوں کو ’ایرانی شہریوں کو ثقافتی اور جمالیاتی تسکین کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش ‘ قرار دیا تھا۔
تنظیم کے مطابق حکام نےجن لوگوں سے تفتیش کی ان میں سے کچھ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بغیر حجاب کے تصاویر پوسٹ کی تھیں ۔
ایرانی انسانی حقوق سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہادی غائمی کہتے ہیں: ’انقلابی گارڈز کی جانب سے ایران کی فیشن انڈسٹری کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدامت پسند انسانی زندگی کے ہر پہلو کو قابو میں لینا چاہتے ہیں اور اپنے تنگ نظر خیالات کے خلاف کسی چیز کو برداشت نہیں کرنا چاہتے۔‘